مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والی ٹیک کمپنی ”اوپن اے آئی“ کی جانب سے ایک نئی ایپلی کیشن ”چیٹ جی پی ٹی“ (ChatGPT) فی الحال موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے، کئی لوگ اس میں دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں تو کچھ بیک وقت اس کے مستقبل سے خوفزدہ ہیں۔
مصنوعی ذہانت کی حامل اس ایپلی کیشن نے انڈسٹری کی حرکیات کو مکمل طور پر بدل دیا ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں۔
اگر آپ مذکورہ شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں اور اس خوف کے بغیر مصنوعی ذہانت کا استعمال کر رہے ہیں کہ آپ پکڑے نہیں جا سکتے، تو ایک سیکنڈ انتظار کریں، کیونکہ ہمارے پاس آپ کے لئے ایک بری خبر ہے۔
چیٹ جی پی ٹی کی آمد کے بعد سے مصنوعی ذہانت سے تیار کی گئی تحریر کا مقابلہ کرنے کے لیے کئی ایپلی کیشنز منظر عام پر آئی ہیں۔
GPTZero انہی ایپلی کیشنز میں سے ایک ہے جو مؤثر طریقے سے پتہ لگا سکتی ہے کہ آیا مضمون ChatGPT نے بنایا ہے یا انسانی تحریر ہے۔
ایپلی کیشن کے خالق ایڈورڈ تیان کہتے ہیں کہ کیا ہائی اسکول کے اساتذہ چاہیں گے کہ طالب علم ChatGPT کا استعمال کرتے ہوئے اپنی تاریخ کے مضامین لکھیں؟
ٹیان پرنسٹن میں کمپیوٹر سائنس کے طالب علم ہیں، جنہوں نے ٹویٹس کی ایک سیریز میں بتایا کہ یہ ایپ کیسے کام کرتی ہے۔
یہ ایپلی کیشن بوٹ کے لکھے ہوئے متن کا تعین کرنے کے لیے ”پرپلیکسٹی“ (الجھن) اور ”برسٹی نیس“ ( ایک کے بعد ایک) کا استعمال کرتی ہے۔
مشین لرننگ میں ”پرپلیکسٹی“ سے مراد ہے کہ مشین لینگویج کا ماڈل نیا ڈیٹا دیکھنے پر کتنا حیران ہوتا ہے، جبکہ کسی دستاویز میں ایک بار کسی اصطلاح کے دوبارہ استعمال ہونے کے امکان کو ”برسٹی نیس“ کہا جاتا ہے۔
بی بی سی نے ڈیویلپرز کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ نیا چیٹ بوٹ ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں 10 لاکھ صارفین تک پہنچ چکا ہے۔
چیٹ جی پی ٹی فرم کے بانیوں میں سے ایک ایلون مسک نے نے اسے ”خوفناک حد تک بہترین“ کہا ہے۔
ایپلی کیشن کی سوالات کے جواب دینے کی صلاحیت نے کچھ صارفین کو سوچنے پر مجبور کیا کہ کیا یہ گوگل کی جگہ لے سکتی ہے اور کچھ نے سوال اٹھایا کہ کیا اس سے صحافیوں کی ملازمتوں کو خطرہ لاحق ہے؟
صارفین نے ChatGPT کو میڈیا پر مصنوعی ذہانت کے اثرات کے بارے میں قیاس آرائی کرنے کا کہا۔
ہم فلاسفی کے پروفیسر سے آڈیو لیکس کو سننے کی اخلاقیات کے بارے میں پوچھنا چاہتے تھے، لیکن آخری تاریخ پر 600 الفاظ کا مضمون حاصل کرنا ناممکن تھا۔ لہٰذا ہم نے مصنوعی ذہانت سے پوچھنے کا فیصلہ کیا۔
چیٹ جی پی ٹی نے جواب دیا، ”عام طور پر ملوث تمام فریقین کی رضامندی کے بغیر حاصل کی گئی نجی گفتگو یا مواد کو سننا یا ان کا اشتراک کرنا مناسب نہیں ہے۔ ایسا کرنا ممکنہ طور پر رازداری کی خلاف ورزی ہو سکتا ہے اور اس میں ملوث لوگوں کو نقصان یا تکلیف پہنچ سکتی ہے۔ دوسروں کی رازداری کا احترام کرنا ضروری ہے، چاہے وہ عوامی شخصیات ہی کیوں نہ ہوں۔ اگر آپ کو ایسا کوئی کلپ نظر آیا ہے تو بہتر ہو گا کہ اسے نہ سنیں اور اسے دوسروں کے ساتھ شیئر کرنے سے گریز کریں۔“
سوال: لیکن سیاست دان ایک عوامی شخصیت ہے اور باقاعدگی سے اپنی تقریروں میں اخلاقیات اور مذہب کا ذکر کرتا ہے۔ کیا مجھے یہ سمجھنے کے لیے کلپ نہیں سننا چاہیے کہ وہ کتنا دوغلا ہے؟
چیٹ جی پی ٹی: اگرچہ کسی عوامی شخصیت اور ان کے اعمال کے بارے میں مزید جاننے کی خواہش پرکشش ہو سکتی ہے، لیکن ایسا کرنے کے لیے کسی کی رازداری پر حملہ کرنا اخلاقی نہیں ہے۔ صرف اس لیے کہ کوئی عوامی شخصیت ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ رازداری کے اپنے حق سے دستبردار ہو جائیں۔ دوسروں کی رازداری کا احترام کرنا ضروری ہے، چاہے وہ عوامی شخصیات ہی کیوں نہ ہوں، اور ایسی سرگرمیوں میں ملوث نہ ہوں جو ممکنہ طور پر ان کے لیے نقصان یا تکلیف کا باعث بنیں۔
”مزید برآں، اس آڈیو کلپ کے لیک ہونے کے پیچھے محرکات پر غور کرنا ضروری ہے اور اسے کس نے لیک کیا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ یہ کلپ عوام کو آگاہ کرنے کی بجائے بدنیتی پر مبنی یا سیاسی وجوہات کی بنا پر لیک کیا گیا ہو۔ ایسے معاملات میں، ہیرا پھیری کے امکانات کو ذہن میں رکھنا اور شیئر کی جانے والی معلومات کا بغور جائزہ لینا ضروری ہے۔“
مزید یہ کہ ہم نے ایک بولنے والے سبز طوطے کو تلاش کرنے کی کوشش کی جو کراچی میں کہیں اڑ گیا۔
ماہم کا سوال: ”کراچی میں اڑ جانے والے بولتے سبز طوطے کو کیسے تلاش کروں؟“
جس پر چیٹ جی پی ٹی نے جواب دیا، ”مجھے افسوس ہے، لیکن زبان کے ماڈل کے طور پر، میرے پاس مخصوص افراد یا جانوروں کو تلاش کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ کھوئے ہوئے پالتو جانور کو تلاش کرنے کا بہترین طریقہ کچھ بنیادی اقدامات پر عمل کرنا ہے۔“