بھارتی سپریم کورٹ نے حکومت کو ریلوے کی زمین پر بسے 50 ہزار مسلمانوں کی بے دخلی سے روک دیا۔
شمالی ہندوستانی ریاست اتراکھنڈ کے علاقے ہلدوانی میں ہزاروں افراد سردی کے موسم میں سر سے چھت چھن جانے کے خطرے سے دوچار تھے، لیکن بھارتی عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے انہیں ایک بڑی راحت ملی ہے۔
دورانِ سماعت سپریم کورٹ نے ریمارکس دئیے کہ، ”راتوں رات 50 ہزار لوگوں کو نہیں اکھاڑا جا سکتا، یہ ایک انسانی مسئلہ ہے، اس کا کوئی قابل عمل حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔“
سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے اس حکم کو معطل کردیا جس میں ہلدوانی کے رہائشیوں کی بے دخلی کا حمک دیا تھا۔چار ہزاروں گھروں کی مسماری کے خلاف دائر کیا گیا یہ کیس سالوں تک جاری رہا۔
لوگوں کو بے دخل کرنے کے لیے ہائی کورٹ کی جانب سے طاقت کے استعمال کی تجویز کا حوالہ دیتے ہوئے، سپریم کورٹ نے کہا، ”یہ کہنا درست نہیں کہ کئی دہائیوں سے وہاں رہنے والے لوگوں کو ہٹانے کے لیے نیم فوجی دستوں کو تعینات کرنا پڑے گا۔“
عدالت نے علاقے میں کسی بھی تعمیر پر روک لگاتے ہوئے ریلوے اور اتراکھنڈ حکومت سے جواب طلب کرلیا۔
سپریم کورٹ کا یہ حکم ان رہائشیوں کے لیے ایک بڑی راحت کے طور پر سامنے آیا ہے جو بے دخلی کو روکنے کے لیے کینڈل مارچ، دھرنے اور دعائیں کر رہے ہیں۔
یہ علاقہ ہلدوانی ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع زمین کی دو کلومیٹر کی پٹی پر محیط ہے، بنبھول پورہ علاقے میں غفور بستی، ڈھولک بستی اور اندرا نگر قائم ہیں۔
مکانات کے علاوہ، تقریباً نصف خاندان زمین کے لیز پر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، یہاں تک کہ اس علاقے کئی دہائیوں میں چار سرکاری اسکول، 11 پرائیویٹ اسکول، ایک بینک، دو اوور ہیڈ واٹر ٹینک، 10 مساجد، چار مندر تعمیر کیے گئے ہیں۔
یہ معاملہ 2013 میں علاقے کے قریب ایک ندی میں ریت کی غیر قانونی کان کنی کی درخواست کی شکل میں عدالت میں پہنچا تھا۔
طویل مقدمہ بازی کے بعد 20 دسمبر کے عدالتی حکم پر عمل کرتے ہوئے ضلعی انتظامیہ نے اخبارات میں نوٹس جاری کرتے ہوئے لوگوں سے کہا تھا کہ وہ 9 جنوری تک اپنا سامان سمیٹ لیں۔
بی جے پی حکومت کو ایسے علاقے جہاں زیادہ تر مسلمان آباد ہیں، کے خلاف کارروائی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ، کارکنان اور سیاست دان بھی احتجاج میں شامل ہوئے تھے۔
کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ ہریش راوت نے ریاستی دارالحکومت دہرادون میں اپنے گھر پر ایک گھنٹہ طویل ’مون ورت‘ (خاموشی) کا انعقاد کیا تھا۔
انہوں نے کہا، ”اتراکھنڈ ایک روحانی ریاست ہے۔ اگر 50,000 افراد بشمول بچے، حاملہ خواتین، بوڑھے اور عورتیں اپنے گھر خالی کرنے اور سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوں، تو یہ بہت افسوسناک منظر ہوگا۔“