پاکستان کے کمرشل بینکوں کے صارفین نے شکایت کی ہے کہ حالیہ بینک ٹرانزیکشن کے دوران بینکوں نے انہیں ڈالر 250 روپے سے زائد کے ریٹ پر فروخت کیے ہیں۔ بزنس ریکارڈر کی ایک رپورٹ کے مطابق فارن کرنسی ٹرانزیکشنز کے لیے انٹرنیٹ بینک اور اوپن مارکیٹ ریٹ میں فرق 24 روپے سے تجاوز کر گیا ہے اور بینک صارفین کو اوپن مارکیٹ ریٹ پر ڈالر فراہم کر رہے ہیں۔
اس وقت انٹربینک ریٹ 226 روپے 94 پیسے ہے۔ اگر بیرون ملک سے کوئی آپ کو رقم بھیجے تو بینک اسی ریٹ کے حساب سے آپ کو پاکستانی روپے میں رقم فراہم کریں گے۔ جب کہ بینک کے چارجز اس کے علاوہ ہیں۔ دوسری جانب اگر آپ نے پاکستان سے باہر کوئی ادائیگی کرنی ہے جو کہ ظاہر ہے ڈالر میں ہوگی تو آپ کے پاکستانی روپے والے اکاؤنٹ سے کٹوتی 250 روپے سے زائد کے حساب سے ہوگی۔ اس 24 روپے سے زائد کے فرق پر لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔
بینکوں کا مؤقف ہے کہ وہ بیرون ادائیگیوں کے لیے ایکس چینج ریٹ کا حساب اوپن مارکیٹ کے حساب سے لگاتے ہیں اور ایسا ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ تاہم بزنس ریکارڈر نے پچھلے 14 ماہ کے ڈیٹا کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ عام طور پر انٹربینک اور اوپن مارکیٹ ریٹ میں یہ فرق پانچ روپے کے اندر اندر ہوتا ہے۔ چند ہی مواقع پر اس میں فرق آیا ہے۔
پچھلے بار جولائی میں اوپن اور انٹربینک ریٹ میں نمایاں فرق دیکھا گیا تھا۔ تاہم اس وقت بھی یہ فرق 13 روپے کے لگ بھگ تھا۔ حالانکہ جولائی 2022 پاکستانی روپے کے لیے بدترین مہینہ تھا اور پاکستانی کرنسی کی قدر میں ساڑھے 14 فیصد کمی ہوئی تھی۔
لیکن اس مرتبہ بینکوں کی جانب سے استعمال کیے جانے والے ریٹ میں یہ فرق کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے۔ حالانکہ انٹربینک ریٹ کے حساب سے یکم نومبر سے اب تک پاکستانی روپے کی قدر میں صرف 7 روپے کی کمی ہوئی ہے۔
جب اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے رابطہ کیا گیا تو کوئی بھی اس معاملے پر بات کرنے کو تیار نہیں ہوا۔
کمرشل بینکوں کی جانب سے بیرون ملک ادائیگیوں کے لیے اوپن مارکیٹ ریٹ استعمال کرنے کی پالیسی کے متاثرین میں وسیم احمد بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنی ایک ٹرانزیکشن کا احوال ٹوئٹر پر شیئر کیا۔
وسیم نے لکھا، ”پاکستان میں قانون موجود ہے، روئے زمین پر اس سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں۔ انٹربینک میں ڈالر کا ریٹ 226 روپے ہے۔ ابھی میں نے اپنے کارڈ سے 29 ڈالر کی ادائیگی کی۔ اکاؤنٹ سے 7335 روپے چارج ہوئے۔ ٹیکس اسکے علاوہ پڑا۔ یعنی مجھے ڈالر 252.93 روپے کے حساب سے چارج ہوا۔ کونسی ریاست؟ کیسا قانون؟“
وسیم کے مطابق ٹرانزیکشن چارجز اور ود ہولڈنگ ٹیکس ملا کر انہیں ڈالر 267 کے حساب سے چارج کیا گیا۔ یعنی بینک نے انہیں ڈالر 267 روپے کے ریٹ پر فراہم کیے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اوپن مارکیٹ اور انٹربینک ریٹ میں بڑھتا ہوا فرق ڈالر کی شدید قلت کے سبب ہے۔ اکتوبر میں بزنس ریکارڈر نے رپورٹ دی تھی کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو ادائیگیوں میں مشکلات پیش آ رہی ہیں اور صرف تعلقات رکھنے والے افراد ہی بیرون ملک ادائیگیاں کر پا رہے ہیں۔
اکتوبر کے بعد کے مہینوں میں صورت حال مزید سنگین ہو چکی ہے۔ بظاہر تو انٹربینک ریٹ مستحکم ہے لیکن لوگوں کے لیے یہ عملی طور پر بے معنی بن چکا ہے۔
انٹرنیٹ بینک اور اوپن مارکیٹ ریٹ کے فرق کی وجہ سے حوالہ ہنڈی کا کاروبار بھی دوبارہ عروج پر پہنچ گیا ہے۔ کیونکہ باہر سے آنے والی رقوم پر جہاں بینک آپ کو انٹربینک کے حساب سے ادائیگی کرے گا وہی حوالہ ہنڈی والے زیادہ رقم دینے کو تیار ہیں۔ نومبر میں بیرون ملک کارکنوں سے وصول ہونے والے زرمبادلہ میں 14 فیصد کمی آئی ہے۔