متحدہ عرب امارات اور چین نے اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے قومی سلامتی کے وزیراتامیر بن گویر کے مسجد اقصیٰ کے احاطے میں داخل ہونے کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
رائٹرز کے مطابق سلامتی کونسل کی میٹنگ جمعرات کو بلائی گئی ہے۔
بن گویر کے اقدامات کی دنیا بھر میں شدید مذمت کی گئی ہے، پاکستا، مصر، اردن، سعودی عرب، ترکی اور متحدہ عرب امارات نے بھی اسرائلی وزیر کے اقدام کی مذمت کی اور فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا
فلسطینی قیادت نے دراندازی کو ”بے مثال اشتعال انگیزی“ قرار دیا۔
فلسطینی وزارت خارجہ نے کہا کہ وہ ”انتہا پسند وزیر بن گویر کی طرف سے مسجد اقصیٰ پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں، اور اسے ایک غیر معمولی اشتعال انگیزی اور تنازعہ میں خطرناک اضافے کے طور پر دیکھتے ہیں“۔
دریں اثناء، فلسطینی وزیر اعظم محمد شطیہ نے بن گویر پر الزام لگایا کہ اس نے یہ دورہ، ٹیمپل کو ”یہودی معبد“ میں تبدیل کرنے کی کوشش کے ایک حصے کے طور پر کیا، جو اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے لوگوں کا ہدف ہے۔
محصور غزہ کی پٹی پر حاکم حماس نے خبردار کیا ہے کہ بن گویر کا یہ اقدام ایک ”سرخ لکیر“ کو عبور کرنے کے مترادف ہے۔
وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے منگل کو دیر گئے ایک بیان جاری کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ ”ٹیمپل ماؤنٹ“ (مسجد اقصیٰ کے احاطے) میں بغیر کسی تبدیلی کے، جمود کو سختی سے برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہیں“۔
منگل کے روز، اسرائیلی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ نیتن یاہو کا اگلے ہفتے متحدہ عرب امارات کا طے شدہ دورہ فروری تک ملتوی کر دیا گیا ہے، حالانکہ اسرائیلی رہنما کے قریبی ذرائع نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ان کا الاقصیٰ واقعے سے کوئی تعلق ہے۔
اسرائیل کے حزب اختلاف کے رہنما اور سابق وزیر اعظم یائر لپید نے پیر کے روز خبردار کیا تھا کہ بن گویر کے کمپاؤنڈ میں جانے کا منصوبہ تشدد کا باعث بنے گا، اور اسے ”جان بوجھ کر اشتعال انگیزی“ قرار دیا جو جانوں کو خطرے میں ڈال دے گا۔
دریں اثنا، اسرائیل کے قریبی اتحادی امریکہ نے اس پیش رفت پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا، ”ہمیں کسی بھی یکطرفہ کارروائی پر گہری تشویش ہے جس میں تناؤ کو بڑھا سکتا ہے کیونکہ ہم اس کے برعکس ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔“
”امریکہ یروشلم میں مقدس مقامات کے حوالے سے تاریخی جمود کے تحفظ کے لیے مضبوطی سے کھڑا ہے۔“
انہوں نے مزید کہا کہ جمود کو کم کرنے والی کوئی بھی یکطرفہ کارروائی ”ناقابل قبول“ ہے۔
مسجد اقصیٰ کا کمپاؤنڈ جسے یہودیوں کے لیے ٹیمپل ماؤنٹ کہا جاتا ہے، مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے لیے مقدس ہے۔
تاہم، یہودی روایتی طور پر یہ مانتے ہیں کہ یہ مقام اتنا مقدس ہے کہ اس پر قدم نہیں رکھا جا سکتا۔
منگل کے روز، اسرائیل کے سیفاردی چیف ربی، یتزاک یوسف نے، الاقصیٰ میں داخل ہونے پر بن گویر کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے استفسار کیا کہ ”لوگ کیا کہیں گے جب وہ ایک وزیر، ایک مشاہدہ کرنے والے یہودی کو دیکھیں گے، جو ربی کے عہدے کی توہین کرتا ہے؟“
کمپاؤنڈ جسے مسلمان ”الحرم الشریف“ بھی کہتے ہیں، مقبوضہ مشرقی یروشلم کے پرانے شہر کے قلب میں ایک وسیع دیوار والی عمارت ہے جس میں مسجد اقصیٰ اور گنبد شامل ہے۔ اس کمپاؤنڈ کا انتظام مسلمانوں نے ایک ٹرسٹ (مذہبی وقف) کے تحت سینکڑوں سالوں سے دیا ہے۔
اردنی فنڈ سے چلنے والا وقف 1967 سے اس جگہ کا انتظام جاری رکھے ہوئے ہے، جبکہ اسرائیل کے پاس سیکیورٹی کنٹرول ہے۔
ایک دیرینہ معاہدے کے تحت، سائٹ کا جمود صرف مسلمانوں کی نماز کی اجازت دیتا ہے، اور غیر مسلموں کی طرف سے صرف مخصوص اوقات میں آنے کی اجازت ہے۔
اسرائیل نے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران مشرقی یروشلم، جہاں الاقصیٰ واقع ہے، پر قبضہ کر لیا تھا۔ اسرائیل کے 1980 میں کئے گئے اقدام کو بین الاقوامی برادری نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔