حکومتی نمائندے سرجوڑ کر بیٹھے، ماہرین سے مشاورت کی، پالیسی بنائی، توانائی بچت پلان کی منظوری کے بعد اعلانات بھی ہوئے لیکن عملدرآمد کھٹائی میں پڑ گیا۔
حکومت کی جانب سے ملک میں توانائی بچت پلان کا اعلان کیا، وفاق سمیت ملک بھر میں نافذ العمل ہونے کا بلند بانگ دعویٰ کیا گیا۔
وفاق کی جانب سے کاروباری اوقات میں تبدیلی کے اعلان کو جہاں ملک بھر کے تاجروں نے ماننے سے انکار کردیا ہے وہیں، وفاق اور خیبرپختونخوا حکومت بھی آمنے سامنے آگئی ہے۔
صوبائی حکومت نے وفاق کی توانائی بچت اسکیم کو یکسر مسترد کردیا۔
پشاور کی تاجر برادری بھی اس معاملے پر دو گروپس میں بٹ گئی۔ ایک گروپ وفاقی حکومت کی توانائی بچت پالیسی کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔
تاجروں کے اس گروپ کا کہنا ہے کہ وہ وفاقی حکومت کے فیصلے پر من و عن عمل کریں گے جبکہ چند تاجروں نے مہنگائی کا رونا روتے ہوئے فیصلے کو مسترد کردیا۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے معاون خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی نے اپنے بیان میں کہا کہ وفاقی حکومت نے اس فیصلے پر خیبرپختونخوا حکومت سے کوئی باضابطہ مشاورت نہیں کی، تاہم یہاں وفاقی حکومت کی اس پالیسی پر عملدرآمد کا تاحال فیصلہ نہیں ہوا۔
پشاور کے دکانداروں کے مطابق کہ شہر میں کئی ایسے بازار ہیں جہاں رونق شام کے بعد ہی بڑھتی ہے، پہلے ہی کاروبار نہیں اور اوپر سے حکومت کی پالیسیاں سمجھ سے بالاتر ہیں۔
مارکیٹیں اور کاروباری مراکز رات ساڑھے 8 بجے بند کرنے کے فیصلے پر لاہور کے تاجروں نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مارکیٹوں کا وقت کم کرنے سے کاروبار متاثر ہو گا اور بیروزگاری بڑھے گی۔ حکومت توانائی کی بچت کو جواز بنا کر ان کے کاروبار تباہ نہ کرے۔
تاجروں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کے فیصلے پر عمل درآمد ہوا تو ملازمین کی تنخواہیں دینا بھی مشکل ہوجائے گا۔
مارکیٹوں کے اوقات کار میں رد و بدل پر بعض کاروباری حضرات نے اسے ملکی مفاد کے لیے بہتر قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت کی بہتری کے لئے تاجر حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
کاروباری حضرات کے ایک طبقے نے مارکیٹوں کا وقت ساڑھے 8 کی بجائے رات 10 بجے کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے پورے ملک کیلئے توانائی بچت پلان کا اعلان تو ہوا لیکن 8 بجے تجارتی مراکز اور بازار بند کرنے پر عملدرآمد نہ ہوسکا، اسلام آباد انتظامیہ بھی احکامات کی منتظر تو پولیس بھی کشمکش کا شکار ہے۔
اس حوالے سے اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے نہ ہی کوئی نوٹی فیکشن جاری کیا گیا، نہ ہی اس پلان کے حوالے سے عملی اقدامات کے گئے، پولیس بھی احکامات کی منتظر رہی۔
حکومت کی جانب سے مارکیٹیں ساڑھے آٹھ بجے بند کرنے کے فیصلے پر شہر اقتدار کی تاجر برادری بھی سراپا احتجاج ہے۔
تاجر کہتے ہیں کہ مہنگی بجلی خریدنے کے باوجود آئے روز تاجروں کی مشکلات میں اضافہ کیا جا رہا ہے، ملک کے معاشی حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے، حکومت فیصلہ واپس لے۔
آل پاکستان انجمن تاجران سندھ کے صدر جاوید قریشی کا بھی کہنا ہے کہ دکانیں جلدی بند کرنے سے مزید نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سندھ میں شادی ہالز ایسوسی ایشن کے صدر رانا رئیس نے شادی ہالز رات دس بجے بند کرنا غیرسنجیدہ فیصلہ ہے، پنجاب اور سندھ کے حالات مختلف ہیں۔
دوسری جانب دیہاڑی دار افراد بھی حکومت کے اس فیصلے سے خوش دکھائی نہیں دیتے، کہتے ہیں کہ پالیسیاں بن جاتی ہیں لیکن عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
کراچی کے تاجروں کا کہنا تھا کہ کاروبار کسی صورت جلد بند نہیں کیا جائے گا، دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی تو تاجر برادری سخت اقدامات پر مجبور ہوجائے گی۔