Aaj Logo

شائع 02 جنوری 2023 09:05pm

سزائے موت کا منتظر نواز شریف جس کی رہائی ہم نام وزیراعظم کی وجہ سے بھی تاخیر کا شکار ہوئی

میں نے 16 سال تین ماہ قید کاٹی ہے، میں نے بے گناہ قید کاٹی، اب میں باہر آیا ہوں تو معاشرہ مجھے تسلیم نہیں کیوں نہیں کرتا؟ اس میں میرا کیا قصور ہے؟ میرا سب کچھ بک گیا، میں اپنے ہی بھائی کا ایک مزارع نوکر بن کر رہ گیا ہوں، اس کے مویشیوں کو چارہ ڈالتا ہوں، زمین کو پانی لگاتا ہوں تو وہ مجھے کچھ کھانے کیلئے دے دیتا ہے، یہ میرے حالات ہوگئے ہیں، اور اس سب کے درمیان میں بالکل بے گناہ ہوں۔

یہ کہانی ہے نواز شریف نامی اس قیدی کی جس نے کئی برس پاکستانی عدالتوں کے چکر کاٹنے کے بعد انصاف کیلئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو ان کا مقدمہ اپنے ہم نام وزیراعظم کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوگیا۔

اس تاخیر کی وجہ یوں تھی کہ دونوں نواز شریفوں کا مقدمہ ایک ہی وکیل لڑ رہے تھے۔

وائس آف امریکہ کو دیئے گئے انٹرویو میں نواز شریف بتاتے ہیں کہ 19 مارچ 2003 میں ایک قتل ہوا جس کا الزام مجھ پر لگایا گیا، اس وقت میں نے میٹرک کا امتحان دیا تھا۔ نہ میں اس معاملے میں ملوث تھا نہ مجھے اس بارے میں کسی چیز کا علم تھا کہ معاملہ ہوا کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مجھے تو صبح آٹھ بجے پتا چلا کہ ٹپیالہ میں قتل ہوا ہے۔

نواز شریف کہتے ہیں کہ ہمارے گاؤں میں ایک اور برادری ہے جس کے ساتھ ہماری دشمنی ہے، انہوں نے مقتول کے لواحقین کے ساتھ مل کر پر ہم پر پرچہ کٹوا دیا۔

انہوں نے بتایا کہ ہمارا جو ڈنگا تھانہ ہے ہم جب (گرفتاری کے بعد) وہاں گئے تو انہوں نے سب سے پہلے ہم پر تشدد کیا کہ تسلیم کرو قتل تم نے کیا ہے، ہم پر رائفلوں کا الزام ڈال کر چالان بنایا اور ہمیں گجرات جیل میں ڈال دیا۔

نواز نے بتایا کہ سیشن کورٹ کی کارروائی 14 مہینے چلی، میں تقریباً تین ایکڑ کا مالک تھا، میں نے اپنی ایک ایکڑ زمین بیچ کر وکیل کی فیس ادا کی، پھر گھر والوں سے جو ملاقاتیں ہوتی تھیں اس پر بھی خرچے ہوئے۔

نواز شریف کہتے ہیں کہ 2004 کے ساتویں مہینے (ستمبر) کی 21 تاریخ کو سیشن کورٹ سے ہمارا فیصلہ ہوگیا، جس میں مجھے یعنی نواز اور انجم عباس کو سزائے موت ہوئی، جبکہ امتیاز اور بلال کو 25، 25 سال قید کی سزا ہوئی ، ہمارے ساتھ پانچواں ملزم تھا بابر جاوید جسے بری کردیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سیشن کورٹ نے سزا سنائی تو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہمیں سزائے موت ہوجائے گی، اپنی بات کروں تو مجھے لگتا تھا میں بے گناہ ہوں میرے ساتھ انصاف ہوگا، میرے ساتھ تو بڑی زیادتی کی گئی جب کہا گیا کہ سزائے موت ہوگی۔

نواز نے بتایا کہ اس کے بعد ہم نے وکیل بدل کر تین ہفتوں کے اندر لاہور ہائیکورٹ میں اپیل کی، اس وقت میں نے زمین کا دوسرا ایکڑ فروخت کرکے نو لاکھ روپے وکیل لطیف کھوسہ کو دئے تو پھر ہماری اپیل ہائیکورٹ میں دائر ہوئی۔ لیکن اپیل دائر ہوئی تو چھ سال ہمارا کیس ہی نہیں سنا گیا، اس کے بعد لطیف کھوسہ پنجاب کے گورنر بن گئے.

ان کی جگہ ان کے بیٹے خرم لطیف کھوسہ آئے اور ساڑھے چھ سال بعد عدالت میں پیش ہوئے تو ہماری اپیل چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ خواجہ شریف نے رد کردی۔

نواز نے غمگین آواز میں بتایا کہ میرے والد صاحب کو پتا چلا کہ بیٹے کی اپیل رد ہوگئی ہے تو انہیں اتنا دکھ ہوا اتنا صدمہ لگا کہ وہ اس غم میں دنیا سے چلے گئے۔ جیل میں ملاقات کیلئے والدہ ہی آتیں تھیں، وہ بہت پریشان ہوتی تھیں، دیواریں پکڑ پکڑ کر روتی تھیں اور یہی دعا کرتی تھیں کہ ہمارا بیٹا بھی باہر آجائے۔

نواز کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ہم نے فیصلے کی کاپی نکلوا کر نیا وکیل کیا، ایک ایکڑ جو زمین میرے پاس رہ گئی تھی وہ بھی بیچ کر میں نے خواجہ سلطان کو وکیل کیا، انہوں نے ہماری اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی اور اپیل دائر کرنے کے بعد وہ فوت ہوگئے۔ ان کی وفات کے بعد ہمارا کیس کسی نے نہیں سنا اور نو سال ہمارا کیس ایسے ہی پڑا رہا۔ پھر ہم خواجہ سلطان کے بیٹے خواجہ حارث کے پاس گئے ان سے منت سماجت کی کہ سپریم کورٹ میں پیش ہوں، و ہ کہتے تھے کہ فیس دو، ہم کہتے تھے کہ فیس نہیں دے سکتے آپ کے والد کو دے چکے ہیں، لیکن وہ کہتے تھے کہ نہیں مجھے دو۔

نواز کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس پیسے نہیں تھے اس کے باوجود ہم نے ان کی منت سماجت کرکے رشتہ داروں وغیرہ سے پیسے لے کر انہیں مزید پانچ لاکھ روپے دئے تو اس کے بعد خواجہ حارث ہماری سماعت پر پیش ہوئے۔

نواز شریف نے کہا کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب نواز شریف کا پانامہ کیس سپریم کورٹ میں چل رہا تھا، اس کی وجہ سے خواجہ حارث وہاں پیش ہورہے تھے، میرا کیس اس وجہ سے بھی تاخیر کا شکار ہوا اور سال ڈیڑھ سال میری پیشیاں ہوتی رہیں، لیکن خواجہ صاحب پیش نہیں ہوئے۔ پھر ہم لاہور گئے وہاں جاکر خواجہ حارث کے منشی سے بات کی تو پھر اگلی پیشی پر وہ پیش ہوئے اور عدالت میں بحث کی تو اللہ کے کرم سے سپریم کورٹ نے ناکافی ثبوت کی بنا پر ہمیں بری کردیا۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ میں جیل سے باہر نکلا تو دنیا بڑی ہی عجیب و غریب ہوچکی تھی ، میں کچھ پہچان ہی نہیں پایا ، باہر کا ماحول دیکھ کر میرا دماغ چکرا گیا۔

انہوں نے کہا کہ سولہ سال زندگی کا ایک بڑا حصہ ہوتا ہے، زندگی کا وہ خوبصورت حصہ میں نے جیل میں گزارا، میں ہر چیز بھول گیا تھا، بچپن میں پورا جیل میں گزرا۔ جیل سے باہر آکر میں نے اپنے ماموں سے رشتہ مانگا، انہوں نے انکار کردیا، کئی رشتے آئے لیکن سب نے انکار کیا، پھر میرے چچا کا ایک بیٹا تھا اس نے میرا رشتہ کرایا تو بڑی مشکل سے میری شادی ہوئی۔

شکوہ کناں نواز کا کہنا تھا کہ یہ جو ہماری سیشن کورٹ ہے یہاں 95 فیصد فیصلے ٹھیک نہیں ہوتے، کوئی تحقیقتات انکوائری نہیں ہوتی، بس جو ایف آئی آرمیں لکھا ہو اس کے مطابق فیصلہ کردیتے ہیں۔ ہائیکورٹ سے 50 فیصد انصاف ملتا ہے ۔

آخر میں انہوں نے کہا کہ میں اعلیٰ حکام سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں میرے ساتھ اتنا ظلم کیوں ہوا؟ میرے ساتھ جیل میں کئی ایسے دوست تھے جن کے ساتھ اس طرح کے ظلم اور زیادتیاں ہوئیں اور وہ سزائے موت کی چکی میں پس رہے ہیں۔

Read Comments