ہفتہ کو اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات کے لیے جب ووٹرز اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کیلئے پولنگ سٹیشنوں پر پہنچے تو انہیں یہ دیکھ کر جھٹکا لگا کہ وہاں ووٹ ڈالنے کے لیے کوئی انتظامات ہی موجود نہیں ہیں۔ اس سے ناصرف ووٹرز کی نمائندگی کا حق اور وقت ضائع ہوا بلکہ بھاری رقوم کے بھی ضائع ہونے کا خدشہ پیدا ہوا۔
ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن کا تخمینہ ہے کہ امیدواروں کی انتخابی مہم پر تقریباً 50 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔
رپورٹس میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے تخمینے کیلئے اسلام آباد کے ایک حصے کا سروے کیا۔ تاہم، اصل اعداد و شمار اس سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔
دارالحکومت کی101 یونین کونسلز (UCs) کیلئے کُل 3,976 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے۔
بلدیاتی انتخابات 13 رکنی پینل کے طور پر لڑے جاتے ہیں اور جماعتیں عموماً پورے پینل کے لیے مشترکہ مہم چلاتی ہیں۔
ہر یو سی میں چیئرمین اور وائس چیئرمین کے امیدوار کے ساتھ ساتھ چھ جنرل ممبران، دو خواتین ممبران، ایک ’کسان‘ ورکر، ایک یوتھ ممبر اور ایک اقلیتی امیدوار کی سیٹیں ہوتی ہیں۔
سیاسی جماعتیں عام طور پر تمام 13 نشستوں کے لیے ایک ساتھ امیدوار کھڑا کرتی ہیں تاکہ مشترکہ مہم چلائی جاسکے۔
اگر ای سی پی کے اعداد و شمار کو درست سمجھا جائے تو اخراجات عام طور پر تقریباً 50 لاکھ روپے فی یوسی بنتے ہیں۔
لیکن آج نیوز کی اسلام آباد میں متعدد امیدواروں کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں اشارہ ملا کہ بہت سی یوسیز میں یہ رقم صرف ایک امیدوار کی جانب سے خرچ کی گئی۔
یوسی چیئرمین شپ کے لیے پی ٹی آئی کے ایک امیدوار نے کہا کہ اگرچہ کل اخراجات کا حساب لگانا مشکل ہے، لیکن ان کی پارٹی نے مہم میں 35 سے 40 لاکھ روپے کے درمیان خرچہ کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ پوسٹرز اور کیمپوں کی شکل میں مہم کا چلنا آخری مہینے میں ظاہر ہوتا ہے، تاہم اصل کام مہینوں پہلے شروع ہوتا ہے۔
مسلم لیگ ن کے امیدواروں نے بھی کچھ ایسا ہی ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا۔
چیئرمین شپ کے ایک امیدوار کا کہنا تھا کہ ان کی یوسی میں انتخابی مہم پر تقریباً 20 لاکھ روپے ان کے اپنے فنڈز سے خرچ ہوئے جبکہ بہت سے اخراجات پارٹی فنڈز یا سپورٹرز نے ادا کیے ہیں۔
جماعت اسلامی کے مطابق ان کے اخراجات دوسری جماعتوں کے مقابلے میں بہت کم تھے۔ سیکٹورل اسلام آباد میں چیئرمین کے ایک امیدوار نے کہا کہ انہوں نے اپنی مہم پر ڈھائی لاکھ روپے سے زیادہ خرچ نہیں کیا۔
تاہم، انہوں نے مزید کہا کہ جماعت اسلامی دیگر جماعتوں کے مقابلے میں بہت کم خرچ کرتی ہے جن کا شروعات ہی ”دسیوں لاکھ“ سے ہوتی ہے۔
انہوں نے دوسرے امیدواروں سے بھی اتفاق کیا کہ رقم کا درس تخمینہ دینا مشکل ہے کیونکہ اخراجات بہت سے ذرائع سے کیے جاتے ہیں۔
ای سی پی کے تخمینہ کے مطابق صرف ایک امیدوار نے اوسط سے زیادہ رقم کا ذکر کیا۔
اسلام آباد کے دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والی یوسی کے لیے پی پی پی کے پینل کا حصہ بننے والے اس امیدوار نے بتایا کہ مہم کے لیے 10 ملین روپے خرچ کیے گئے ہیں اور یہ کوئی موٹا اندازہ نہیں ہے۔
امیدوار نے بتایا کہ ان کے پینل ممبران کے پاس رسیدیں ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نمبر واقعی کروڑ تک پہنچ گیا ہے۔
ہر یو سی اور 13 ممبران پر مشتمل ہر پینل میں متعدد پارٹیوں کے درمیان ہونے والے مقابلے میں لگتا نہیں کہ مجموعی طور پر اوسطاً 50 لاکھ روپے خرچ کیے گئے ہوں۔
ہر یوسی میں ممکنہ طور پر خرچ کی گئی اور انتخابات میں تاخیر کے نتیجے میں ضائع ہونے کے درپے رقم متوقع طور پر 500 ملین روپے سے کہیں زیادہ ہے۔
رپورٹس کے مطابق الیکشن کے انتظامات پر کمیشن نے خود تقریباً 50 ملین روپے خرچ کئے۔ تاہم، یہ تمام رقم ضائع نہیں ہوئی ہے۔ اس رقم میں سے تقریباً 15 ملین روپے کے سامان کی خریداری پر خرچ کئے گئے، جس میں سے کچھ انتخابات کے نتیجے میں کسی بھی وقت استعمال کے قابل ہیں۔
ای سی پی کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ یہ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ ای سی پی کی جانبب سے بتائی گئی رقم متوقع رقم کے اعداد و شمار درست ہوں، کیونکہ یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں کہ انتخابی مہم کے دوران کتنی رقم خرچ ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ”مہم کے اخراجات صرف بینرز اور پوسٹروں سے کہیں زیادہ ہیں، ہم نے سنا ہے کہ بہت سے ووٹروں نے امیدواروں سے سڑکیں ٹھیک کرانے یا مکانات کی تزئین و آرائش کرنے کو کہا، اس قسم کے اخراجات امیدوار خود ادا کرتے ہیں، پارٹیاں نہیں۔“
ان کا مزید کہنا تھا کہ پارٹی فنڈز مہمات کے لیے آسانی سے جمع نہیں ہوتے، خاص طور پر مقامی حکومتوں کی سطح پر، کیونکہ اعلیٰ قیادت فنڈز کو سینے سے لگائے رکھتی نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر انتخابات چند ہفتوں میں کرائے جائیں تو انتخابی مہم کے اخراجات کو ضائع نہیں سمجھا جائے گا۔