الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اسلام آباد بلدیاتی انتخابات سے متعلق فیصلہ محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے انتخابات ملتوی کردیے۔ بلدیاتی انتخابات کے لئے پولنگ 31 دسمبر کو ہونی تھی جس سے محض 4 دن قبل الیکشن کمیشن نے فیصلہ سنایا۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 5رکنی کمیشن نے اسلام آباد بلدیاتی انتخابات سےمتعلق کیس کی سماعت کی اور فیصلہ محفوظ کر لیا جو پونے 2 بجے کے قریب سنایا گیا۔
الیکشن کمیشن نے یونین کونسلز کی تعداد میں اضافے کے پیش نظر انتخابات ملتوی کرنے کی حکومت کی استدعا منظور کرلی۔ بلدیاتی انتخابات اب 101یونین کونسلز کی بجائے 125 یوسیز میں ہوں گے۔
جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی استدعا مسترد کردی گئی جنہوں نے الیکشن وقت پر کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔
یاد رہے کہ حکومت نے اسلام آباد میں یونین کونسلز بڑھانے کے لئے بل حال ہی میں پارلیمنٹ سے منظور کرایا ہے۔
اسی معاملے پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی منگل کو سماعت ہو رہی ہے لیکن عدالت عالیہ نے الیکشن کمیشن کو فیصلے سے روکنے کا حکم دینے سے انکار کردیا۔
اس ست قبل چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے اسلام آباد بلدیاتی انتخابات سےمتعلق کیس کی سماعت کی۔
ایڈووکیٹ جنرل جہانگیرجدون اورسابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے بابراعوان اورعلی نوازاعوان کے علاوہ جماعت اسلامی کی جانب سے میاں اسلم الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ کوئی ایسی قانون سازی ہوکہ لوکل گورنمنٹ الیکشن اپنے وقت پرہوں کیونکہ ہمیں صوبوں میں بھی بلدیاتی انتخابات کے لیے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سابق اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نےبلدیاتی انتخابات سے متعلق فیصلہ دیا ہے،اسلام آباد انتظامیہ نےیونین کونسلزکی تعداد میں اضافےکی سفارش کی،آبادی میں اضافے کےباعث یوسیزکی تعداد میں اضافہ کیا گیا۔
ممبرالیکشن کمیشن اکرام اللہ خان نے پوچھا کہ کیا اس حوالے سے مردم شماری کی گئی؟، جس پر سابق اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ادارہ شماریات نےاسلام آباد کی آبادی میں اضافے کابتایا،الیکشن کمیشن کوآبادی میں اضافے کا معاملہ دیکھنا چاہیئے،اسلام آباد ہائیکورٹ نےبھی آبادی میں اضافے کوتسلیم کیا۔
اشتراوصاف نے دلائل دیے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نےالیکشن کمیشن کوحتمی فیصلہ کرنے کا اختیاردیا ہے،اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو وفاقی حکومت کا مؤقف سننے کا کہا ہے، الیکشن کمیشن نے وفاقی حکومت کو سنے بغیر فیصلہ جاری کیا، الیکشن کمیشن یونین کونسلز سے متعلق وفاقی حکومت کا مؤقف سنے۔
سابق اتارنی جنرل نے کہا کہ ماضی میں بھی شیڈول جاری ہونے کے بعد بھی الیکشن ملتوی کیے گئے۔ الیکشن کمیشن کو آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے، الیکشن کمیشن بڑی تعداد میں شہریوں کو ان کے حقوق سے محروم نہیں رکھ سکتا۔ وفاقی حکومت اسلام آباد میں یونین کونسلز میں اضافے سے متعلق قانون سازی کرچکی ہے
اشتر اوصاف نے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن نئے قانون کے مطابق اسلام آباد میں ازسرنو حلقہ بندیاں کرے، یونین کونسلز میں اضافے کے بعد ووٹر لسٹوں لو ازسرنو تشکیل دینا ہوگا، اس سے قبل یونین کونسلز کی تعداد 50 سے بڑھا کر 101 کی گئی، اب یونین کونسلز کی تعداد بڑھا کر 125 کی گئی ہے۔الیکشن کمیشن ممبرنثار درانی نے کہا کہ ایکٹ کا سیکشن 4 بھی پڑھ کر بتائیں۔
سابق اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یونین کونسلز کی نشاندھی کرنا وفاقی حکومت کا اختیار ہے جس پرممبرنثار درانی نے کہا کہ جون میں یونین کونسلز کی تعداد 101 کی گئی، 6 ماہ کے اندر اسلام آباد کی آبادی کیسے اتنی بڑھ گئی؟
اشتراوصاف نے جواب دیا کہ 6 ماہ قبل نادرا کے ڈیٹا کا جائزہ نہیں لیا گیا تھا۔
ممبر اکرام اللہ خان نے کہا کہ نادرا کا ریکارڈ تو ہمارے پاس بھی ہے، ہمارے ریکارڈ کے مطابق اسلام آباد کی آبادی میں اتنا اضافہ نہیں ہوا۔ یونین کونسلز کی تعداد میں اضافہ حکومت نے کیا ہے لیکن ابھی اس قانون سازی کا آفیشل گزٹ جاری نہیں ہوا۔
سابق اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مجھے معلوم نہیں حکومت نے کون سے ریکارڈ دیکھا ہے، قومی اسمبلی اور سینیٹ نے یونین کونسلز میں اضافے کے بل کی منظوری دے دی ہے، لوکل ایریا کی باؤنڈری اور یونین کونسلز کی تعداد میں اضافہ مختلف چیزیں ہے۔
چیف الیکشن کمشنرنے کہا کہ الیکشن کمیشن اسلام آباد میں 2 مرتبہ حلقہ بندیاں کرچکا ہے ، پنجاب میں بھی 2 مرتبہ حلقہ بندیاں کرچکے ہیں، حکومت کو پہلے یونین کونسلز میں اضافے کاخیال کیوں نہیں آیا؟ ہر صوبائی حکومت بلدیاتی انتخابات نہیں کرانا چاہتی، خدشہ ہے حکومت حلقہ بندی کے بعد دوبارہ یونین کونسلز میں ردوبدل نہ کردے۔
سکندر سلطان راجہ نے ریمارکس دیے قانون سازی سے مئیر کا الیکشن براہ راست کردیا، ہم نے مئیر کے لئے کاغذات نامزدگی وصول کیے نہ بیلٹ پیپر چھپوایا ہے، حکومت نے ہمارے لیے بڑا مسئلہ بنا دیا ہے، حکومت کہیں تو اس چیز کو روکے۔
اشتر اوصاف نے جواب دیا کہ حلف دیتا ہوں اس کے بعد قانون میں ردوبدل نہیں ہوگا جس پرممبر اکرام اللہ خان نے کہا کہ اس دوران اگر جنرل الیکشن آ گئے تو پھر بلدیاتی انتخابات کا کیا مستقبل ہوگا؟
سابق اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وفاقی حکومت عام انتخابات، صوبائی اور بلدیاتی انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن کی پوری معاونت کرے گی، قانون میں تںدیلی کے بعد نئے قانون کے تحت بلدیاتی انتخابات کرانے ہیں۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ حکومتیں ہر دوسرے دن الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر کے بلدیاتی انتخابات ملتوی کردیتی ہیں، ہم پارلیمنٹ کو لکھیں گے کی قانون سازی کرے جس سے بلدیاتی انتخابات وقت پر ہوں۔اشتر اوصاف نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن سے درخواست ہے 125 یونین کونسلز کی بنیاد پراسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کرائے۔
سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ ووٹر لسٹوں کی سکروٹنی کا ایک پورا مرحلہ ہے، الیکشن شیڈول جاری ہونے سے پہلے ووٹ رجسٹر کرایا جاسکتا ہے۔
علی نوازاعوان کے وکیل بابراعوان نے دلائل دیے کہ قانون کے حوالے سے تین غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں، بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ابھی تک بل کی حتمی منظوری نہیں ہوئی، یونین کونسلز میں اضافے کے بل کی حتمی منظوری ابھی نہیں ہوئی، بلدیاتی انتخابات بل کی صدرمملکت نے منظوری نہیں دی، آئین کے آرٹیکل 50 کے تحت صدر کے اختیارات ہیں
بابراعوان نے کہا کہ صدرمملکت پارلیمنٹ کا بنیادی جزو ہے۔ آرٹیکل 75 کے مطابق صدرکی منظوری کے بعد بل قانون بنتا ہے۔ صدر 10 دن کے اندر بل پارلیمنٹ کو واپس بھجوا سکتا ہے، صدر مملکت کسی بل کو تجاویز یا اعتراضات کے ساتھ پارلیمنٹ کو واپس بھجوا سکتا ہے۔ صدر یکم جنوری تک بلدیاتی انتخابات کا قانون واپس بھجوا سکتے ہیں۔
علی نوازاعوان کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات 31 دسمبر کو شیڈولڈ ہیں، اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی حمایت کرتا ہوں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے کوئی آرڈر جاری نہیں کیا، اسلام آباد ہائیکورٹ نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے اختیار الیکشن کمیشن کو دیا ہے۔
وکیل بابراعوان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو ووٹر لسٹوں کے حوالے سے بھی فیصلہ کرنے کی ہدایت کی گئی، حکومت تو خود بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے رہی ہے، اس کیس میں سیاسی بات نہیں کروں گا، قانون کے حوالہ دوں گا۔ الیکشن کمیشن دیکھے کس جماعت نے 101 یوسیز میں کتنے امیدوار کھڑے کیے، حکومت کے ہاس معاملات درستی کیلئے وسیع اختیارات ہیں۔
علی نواز اعوان کے وکیل نے مزید دلائل دیے کہ یونین کونسلز میں اضافے پر حکومتی بدنیتی نظر آرہی ہے، حکومت نے اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ کی ہے، دفعہ 144 کے نفاذ کے باعث امیدواروں کو الیکشن مہم چلانے سے روک دیا گیا، بار بار حلقہ بندیوں سے قومی خزانے پر بوجھ ڈالا جارہا ہے۔ اسلام آباد کی عوام جو فیصلہ کریں اس کو منظور کریں، الیکشن سے 3 روز قبل کیسے شیڈول میں ردوبدل کیا جاسکتا ہے۔
بابراعوان نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بغیر یوسیز کی تعداد میں تبدیلی کردی، نیا قانون بن جائے پھر بھی بلدیاتی انتخابات پرانے قانون کے مطابق ہی ہوں گے، حکومت آئین کے مطابق ملک کو چلنے دے، پاکستان کے آئین کو مذاق نہ بنایا جائے، 3 دن قبل کہنا بلدیاتی انتخابات نہ کرائیں یہ آئین کے ساتھ مذاق ہے، جو مرضی قانون لے آئیں الیکشن کمیشن 31 دسمبرکو بلدیاتی انتخابات کرائے۔
جماعت اسلامی کے وکیل حسن جاوید نے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد کےقیام کے50 سال بعد بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے، اسلام آباد میں 2 سال سے کوئی بلدیاتی حکومت نہیں ہے۔
چیف الیکشن کمشنرنے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا حکم کلعدم قراردیا ہے۔
جماعت اسلامی کے وکیل حسن جاوید نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے ان کو نہیں سنا، اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو تمام فریقین کو سننے کی ہدایت کی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو کوئی حکم نہیں دیا۔
چیف الیکشن کمشنرنے کہا کہ عدالت نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن یونین کونسلز کی تعداد میں اضافے کا معاملہ دیکھے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کا آرڈر اہم ہے۔
وکیل جماعت اسلامی نے کہا کہ شیڈول جاری ہونے کے بعد قانون میں تبدیلی حکومت کی بدنیتی واضح کرتی ہے۔
چیف الیکشن کمشنرنے کہا کہ الیکشن کمیشن ووٹرلسٹوں پر نظر ثانی کرچکا ہے، الیکشن کمیشن نے ابتدائی ووٹر لسٹیں جاری کیں، الیکشن شیڈول جاری ہونے سے قبل ووٹر کی رجسٹریشن کی جاسکتی ہے، ووٹر لسٹوں کا الیکشن شیڈول سے کوئی تعلق نہیں۔
بعدازاں الیکشن کمیشن نے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا، الیکشن کمیشن ایک بجے فیصلہ سنائے گا۔