دختر مشرق، سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کی15ویں برسی آج عقیدت اور احترام سے منائی جارہی ہے، شدید سردی کے باوجود گڑھی خدا بخش بھٹو میں پیپلز پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔
محترمہ بینظیربھٹو شہید کی برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں جلسے کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں جبکہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری جلسہ عام سے خطاب کریں گے۔
گڑھی خدا بخش میں برسی میں شرکت کے لئے ملک بھر سے کارکنوں کے قافلوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے جبکہ مزار کے سامنے پنڈال میں کارکنوں کے لئے کیمپس قائم کیے گئے ہیں۔
دوسری جانب بینظیر بھٹو شہید کی 15 ویں برسی کے موقع پر سیکیورٹی انتظامات کے سلسے میں ایس ایس پی لاڑکانہ ڈاکٹر محمد عمران خان کی زیرصدارت اجلاس ہوا، جس میں سیکیورٹی پلان ترتیب دے دیا گیا۔
بینظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات ہیں، 8 ہزار سے زائد پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔
مزار کے باہر اور اندر واک تھرو گیٹس پر تلاشی کے بعد کارکنوں کو داخل ہونے دیا جا رہا ہے جبکہ قافلوں کی آمد کے لئے مزار کے اطراف میں پارکنگ ایریاز قائم اور ٹریفک اہلکار مقرر کیے گئے ہیں۔
دوپہر کے بعد مشاعرے سے برسی کے جلسے کا آغاز ہوگا، برسی کے مرکزی جلسے سے بلاول بھٹو زرداری سمیت مرکزی اور صوبائی رہنماء خطاب کریں گے، اس سلسلے میں مرکزی اور صوبائی رہنما بھی لاڑکانہ پہنچ چکے ہیں۔
ادھر وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ شہید بینظیر بھٹو کو ہم ہر روزیاد کرتے ہیں، ہر روز ان کے فکر و ویژن سے رہنمائی حاصل کرتےہیں۔
انہوں نے کہا کہ بینظیر جیسے کرشماتی لیڈر صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں، انہوں نے نفرت نہ کرنا اور دوسروں کو معاف کرنا سکھایا، شہید بینظیر پاکستان میں جمہوری جدوجہد کی معمار تھیں۔
وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ بینظیربھٹو وفاق کی مضبوط علامت تھیں، غربت، بھوک، بیروز گاری ختم کرنے کے لئے جدوجہد کریں گے۔
ادھر آصفہ بھٹو زرداری نے اپنے ٹوئٹر بیان میں کہا کہ 15 سال گزرنے کے باوجود زخم آج بھی تازہ ہیں، بے نظیر بھٹو کی شہادت ملک کیلئے بڑا نقصان ہے۔
سابق صدر آصف زرداری نے شہید بینظیر بھٹو کی برسی پر اپنے پیغام میں کہا کہ میں شہید بی بی کے مشن کے حوالے سے نیند میں بھی غفلت نہیں کرسکتا، سیاست میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی فلاسفی میری رہنمائی کررہی ہے۔
آصف زرداری نے کہا کہ بینظیر بھٹو نے وحشی اور سفاک آمروں کی بہادری سے مزاحمت کی تھی، سیاست میں بینظیر بھٹو کے مشن کو آگے بڑھایا جائے گا، محترمہ نے آئین اور جمہوریت کی خاطر بے پناہ قربانیاں دیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو نے مشکلات کے باوجود جمہوریت کے لئے مزاحمت جاری رکھی، الحمد اللہ میں نے محترمہ شہید کے اس خواب کی تکمیل کردی ہے۔
بینظیر بھٹو سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے گھر21 جون 1953 کو بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام بےنظیر رکھا گیا۔
کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس صنف نازک کا حوصلہ اور ہمت صنف آہن سے بھی کہیں بڑھ کر تھا، کم عمری میں اپنے والد کو تختہ دار پر چڑھتا دیکھا، 29 برس کی عمر میں پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی، جلاوطنی کاٹنے کے بعد 1986 میں وطن واپس پہنچیں۔
بینظیر بھٹو 1987 میں آصف علی زرداری سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں اور 35 سال کی عمر میں عالم اسلام کی پہلی مسلم خاتون وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل کیا۔
بینظیر نے1998 میں پھر جلاوطنی اختیار کی،18 اکتوبر 2007 کو وطن واپس پہنچی تو ان پر پہلا حملہ ہوا، جس میں 200 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے۔
بینظیر کی زندگی ایک کتاب ہے، جدوجہد اور قربانی کی ایک داستان ہے، 27 دسمبر 2007 راولپنڈی کے لیاقت باغ میں انہیں شہید کردیا گیا۔
اس حملے میں ایک عظیم رہنماء کی جان تو چلی گئی لیکن بے نظیر نہ مری، وہ آج بھی لوگوں کی دلوں کی دھڑکن ہے۔