صدر مملکت عارف علوی کا ایک بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ جنرل باجوہ اور ان کی ٹیم نے سینیٹ میں اور الیکشن میں عمران خان کی مدد کی تھی۔
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی جانب سے جنرل(ر) پر کئی گئی سخت تنقید کے تناظر میں یہ بیان نہایت اہم ہے۔ اس سے قبل پرویز الہیٰ اور ان کے صاحبزادے مونس الہی بھی کہہ چکے ہیں کہ جنرل باجوہ عمران خان کے محسن ہیں۔ تاہم پی ٹی آئی چیئرمین جنرل باجوہ کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔
صدر عارف علوی نے 25 دسمبر کو یوم قائد پر کراچی میں مصروف دن گزرا۔ صبح انہوں نے مزار قائد پر حاضری دی اور شام کو ایک عشایئے میں کاروباری حضرات اور صحافیوں سے کھلی بات چیت کی۔ اس بات چیت پر مبنی ایک رپورٹ روزنامہ جنگ میں پیر کو شائع ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق صحافی مظہر عباس نے صدر سے سوال کیا کہ کیا عمران خان نے کسی موقع پر جنرل باجوہ کو برطرف کرنے کا سوچا تھا؟ اس پر صدر مملکت نے کہا کہ نہیں میرا نہیں خیال کہ ایسا کچھ تھا، یہ افواہ ہے۔ جب صدر علوی سے یہ پوچھا گیا کہ خان اور جنرل باجوہ کے درمیان تعلقات کب خراب ہوئے تو صدر مملکت نے کہا کہ میں بھی اس سوال کا جواب تلاش کر رہا ہوں، لیکن شاید گزشتہ سال اکتوبر میں اور اس کے بعد رواں سال اپریل مئی کے دوران ایسا ہوا تاہم صدر نے کہا کہ جنرل باجوہ اور ان کی ٹیم نے سینیٹ میں عمران خان کی مدد کی اور انہوں نے الیکشن میں بھی پی ٹی آئی کی مدد کی، مجھے اِس کا علم ہے۔
صدر مملکت کا یہ بیان وائرل ہوا تو پیر کو ایوانِ صدر کی جانب سے جاری وضاحت میں کہا گیا کہ 2018 کے عام اور سینیٹ انتخابات کے دوران فوج کی جانب سے پی ٹی آئی کی مدد کئے جانے سے متعلق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا بیان غلط طور پر ان سے منسوب کیا گیا۔
اس وضاحتی باین کے ردعمل میں سینئیر صحافی مظہر عباس کا کہنا تھا کہ ”صدر عارف علوی نے کہا تھا کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) باجوہ نے 2018 کے انتخابات میں ’ہماری‘ مدد کی۔ چونکہ یہ میری اسٹوری نہیں تھی، میں اس میں مزید اضافہ نہیں کرنا چاہت، لیکن صدر کے ترجمان نے وضاحت کی کہ اسٹوری میں سیاق و سباق سے ہٹ کر کیا تھا۔“
صدر عارف علوی نے سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی انتشار کی سیاست کے حوالے سے پوچھے گئے سخت سوالوں کا باہمت اور پرسکون انداز سے جواب دیا۔
رپورٹ کے مطابق صدر عارف علوی نے کہا کہ انہوں نے ’’آڈیوز اور ویڈیوز کے کھیل‘‘ کے حوالے سے نئے آرمی چیف سے بات کی ہے،مجھے حیرت ہے کہ یہ سلسلہ کیوں جاری ہے، کسی بھی اخلاقی لحاظ سے یہ سلسلہ جاری نہیں رہنا چاہئے۔
صدر مملکت نے کہا کہ اگر فوج نے سیاست چھوڑ دی ہے تو اب وقت آچکا ہے کہ سیاست دان معاملات کو اپنے کنٹرول میں لے لیں۔ انہوں نے کہا، ’’آپ (سیاست دان) ایسے حالات پیدا کر دیں کہ جن میں آپ کو اِن (فوج) کی طرف نہ بھاگنا پڑے۔‘‘ ڈاکٹر علوی کی رائے تھی کہ ملک کو مشکل وقت کا سامنا ہے، انہوں نے کہا کہ ہمیں چاہئے کہ ایک نئی شروعات کیلئے ماضی کو بھول جائیں اور لوگوں کو معاف کر دیں، آئیں ایسا ملک بنائیں جس کے ہم مستحق ہیں۔’’
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ اداروں نے اپنا کردار ادا نہیں کیا، حتیٰ کہ عدلیہ نے بھی نہیں۔ صدر نے کہا کہ عدالتوں نے آمر کو آئین میں تبدیلی کرنے کی اجازت دینے کیلئے فیصلے سنائے، انہوں نے ریکو ڈک کا حوالہ دیا جس کی وجہ سے پاکستان کو 7 ارب ڈالرز کا جرمانہ ادا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہاکہ اگر آپ عدلیہ پر تنقید کریں گے تو اس سے پوری عدلیہ کا وقار کم ہوتا ہے اگر آپ فوج پر تنقید کرتے ہیں تو اس سے پورے ادارے کا وقار مجروح ہوتا ہے اور آپ یہ نہیں چاہتے کہ ان کے وقار کو نقصان ہو۔ انہوں نے کہا کہ لیکن اس اصول کو اس قدر کھینچ کر ہر صورتحال پر لاگو کر دیا جاتا ہے کہ کوئی ان کیخلاف کچھ کہہ ہی نہیں پاتا۔
آئندہ الیکشن کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں صدر علوی نے کہا کہ انہوں نے حکومت اور اپوزیشن کو زبانی تجویز دی ہے کہ بیچ کا معاملہ تلاش کر لیں اور الیکشن اپریل کے آخر یا پھر مئی میں کرا لیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئندہ الیکشن کی تاریخ طے نہیں ہے اور عمران کو پریشان ہونا چاہئے کہ الیکشن آئندہ سال اکتوبر میں ہوں گے یا نہیں۔
صدر عارف علوی سے منسوب بیان پر تحریک انصاف نے فوری طور پر کوئی ردعمل جاری نہیں کیا تاہم ماضی میں صدر مملکت پارٹی کے بیانیے کے خلاف دیئے گئے اپنے بیانات واپس لے چکے ہیں۔
اکتوبر میں صدر عارف علوی نے آج نیوز کو انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ عمران خان کو ہٹانے کے لیے سازش ہوئی ہے لیکن اس کی تحقیقات ہونی چاہیں۔
تاہم ان کے اس بیان پر بحث چھڑنے کے بعد صدر نے کہاکہ انٹرویو میں ان کا بیان سیاق و سبق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔