Aaj Logo

شائع 24 دسمبر 2022 04:59pm

بدنامِ زمانہ سیریل کلر ”چارلس سوبھراج“ فرانس پہنچ گیا

ستر کی دہائی میں ایشیاء بھر میں متعدد قتل کا ذمہ دار فرانسیسی سیریل کلر چارلس سوبھراج تقریباً 20 سال قید کی سزا کاٹ کر ہفتہ کو واپس فرانس پہنچ چکا ہے۔

نیپال کی اعلیٰ عدالت نے بدھ کے روز فیصلہ سنایا تھا کہ چارلس سوبھراج کو صحت کے مسائل کی بنیاد پر رہا کیا جائے اور 15 دنوں کے اندر فرانس بھیج دیا جائے۔

جمعہ کے روز اسے رہا کیا گیا اور اسے دوحہ کے راستے پیرس لے جانے کے لیے کھٹمنڈو کے ہوائی اڈے پر پرواز میں بٹھایا گیا۔

دوحہ کی پرواز میں اس نے اے ایف پی کے ایک صحافی سے گفتگو میں اصرار کیا کہ وہ ”بے گناہ“ ہیں۔

سوبھراج کی زندگی کو نیٹ فلکس اور بی بی سی کی مشترکہ پروڈیوس کردہ سیریز ”دی سرپنٹ“ میں بیان کیا گیا تھا۔

جس کے مطابق سوبھراج 1970 کی دہائی میں اپنے شکار کو نشے میں مبتلا کرنے، لوٹنے اور قتل کرنے سے پہلے خود کو جواہرات کا تاجر ظاہر کرتا اور ان سے دوستی کرتا تھا۔

طیارے میں سوار سوبھراج نے جمعہ کو اے ایف پی کو بتایا، ”میں بہت اچھا محسوس کر رہا ہوں… مجھے بہت کچھ کرنا ہے۔ مجھے بہت سے لوگوں پر مقدمہ کرنا ہے۔ جس میں نیپال کی ریاست بھی شامل ہے۔“

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا انہیں لگتا ہے کہ انہیں بطور سیریل کلر غلط بیان کیا گیا ہے، 78 سالہ بزرگ سوبھراج نے کہا، ”ہاں، ہاں۔“

اے ایف پی کے ایک رپورٹر نے تصدیق کی کہ سوبھراج ہفتے کی صبح فرانس کے دارالحکومت میں اترے۔

ائیرپورٹ ذرائع کے مطابق، پیرس پہنچنے پر انہیں بارڈر پولیس اضافی ”شناختی جانچ“ کے لیے اپنے ساتھ لے گئی۔

ائیرپورٹ ذرائع نے کہا کہ چارلس سوبھراج فرانس میں حکام کو ”مطلوب نہیں“ تھا اور ایک بار جب تمام جانچ پڑتال ہو جائے گی، تو وہ ائیرپورٹ سے باہر جا سکے گا۔

’بکنی قاتل‘

چارلس سوبھراج سائگون میں ایک ہندوستانی باپ اور ویتنامی ماں کے ہاں پیدا ہوا نے بعد میں ایک فرانسیسی شخص سے شادی کی، سوبھراج نے جرم کی بین الاقوامی دنیا میں قدم جمائے اور 1975 میں تھائی لینڈ پہنچا۔

شائستہ مزاج اور نفیس سوبھراج پر ایک نوجوان امریکی خاتون کے قتل کا الزام عائد کیا گیا، جس کی بکنی میں ملبوس لاش ساحل پر ملی تھی۔

”بکنی قاتل“ کے نام سے مشہور ہونے والے سوبھراج کو بالآخر 20 سے زائد قتلوں سے جوڑا گیا۔

انہیں 1976 میں بھارت میں گرفتار کیا گیا اور بالآخر وہاں انہوں نے 21 سال جیل میں گزارے، لیکن اس میں وہ وقفہ شامل نہیں جب سوبھراج نے 1986 میں جیل کے محافظوں کو نشہ آور مشروب پلایا اور فرار ہو گئے۔ انہیں ہندوستان کی ساحلی ریاست گوا میں دوبارہ پکڑا گیا۔

1997 میں رہائی کے بعد سوبھراج پیرس چلے گئے اور وہاں صحافیوں کو معاوضہ کے عوض انٹرویوز دیتے رہے، لیکن 2003 میں وہ واپس نیپال آئے۔

’مکافاتِ عمل‘

نیپال میں انہیں ہمالین ٹائمز اخبار کے بانی صحافی جوزف ناتھن نے ایک کیسینو میں جوا کھیلتے ہوئے دیکھ لیا اور وہیں پر سوبھراج کو گرفتار کر لیا گیا۔

سوبھراج کہتے ہیں، ”میرے خیال میں یہ مکافاتِ عمل تھا۔“

نیپال کی عدالت نے اگلے سال سوبھراج کو 1975 میں امریکی سیاح کونی جو برونزِچ کو قتل کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ ایک دہائی بعد، وہ برونزِچ کے کینیڈین ساتھی کو قتل کرنے کے مجرم بھی پائے گئے۔

جمعہ کو قطر ایئرویز میں پریشان ساتھی مسافروں کے درمیان اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے، سوبھراج نے اصرار کیا کہ وہ نیپال میں ہونے والی ہلاکتوں میں بے قصور ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیپال کی عدالتیں، ضلعی عدالت سے لے کر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک، تمام ججز میرے کے خلاف متعصب تھے۔

انہوں نے مزید کہا، ”میں ان معاملات میں بے قصور ہوں، ٹھیک ہے؟ تو مجھے اس کے لیے برا یا اچھا محسوس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں بے قصور ہوں۔ یہ کیس جعلی دستاویزات پر بنایا گیا تھا۔“

تھائی پولیس افسر سومپول سوتھیمائی، جن کا انٹرپول کے ساتھ کام 1976 کی گرفتاری کو محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کرتا تھا، نے سوبھراج کو تھائی لینڈ کے حوالے کرنے پر زور دیا تھا کیونکہ انہوں نے وہان بھی قتل کی کوشش کی تھی۔

لیکن جمعرات کو، سومپول نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہیں رہائی پر کوئی اعتراض نہیں ، کیونکہ وہ اور مجرم دونوں اب بہت بوڑھے ہو چکے ہیں۔

نوے سالہ سومپول نے کہا، “مجھے اب اس کے بارے میں کوئی احساس نہیں ہے کہ اتنا عرصہ ہو گیا ہے۔ ”مجھے لگتا ہے کہ وہ پہلے ہی اپنے اعمال کی سزا بھگت چکا ہے۔“

Read Comments