اسپیشل جج سینٹرل نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) رہنما سینیٹر اعظم سواتی کی ضمانت مسترد کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔
تحریری فیصلے کے مطابق بادی النظرمیں اعظم سواتی نے ضمانت پر رہا ہونے کے باوجود دوبارہ اسی جرم کا ارتکاب دوبارہ کیا اورعدالت اعظم سواتی کو ضمانت پر رہا کرنے کیلئے قائل نہیں ہے۔
عدالت کی جانب جارکردہ 6 صفحات پرمشتمل تفصیلی فیصلہ اسپیشل سینٹرل جج محمد اعظم خان نے تحریرکیا ہے، جس کے مطابق ملزم اعظم خان سواتی کی جانب سے ایڈووکیٹ بابراعوان عدالت میں پیش ہوئے۔
تفصیلی فیصلے میں اعظم سواتی کی ضمانت مسترد کرنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہےکہ ملزم پر جو دفعہ لگائی گئی ہے اس پر ضابطہ فوجداری کی دفعہ 497 کا بھی اطلاق ہوتا ہے جس میں زیادہ سے زیادہ سزا عمر قید اور کم سے کم سزا 10 برس قید ہے۔
تفصیلی فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ بابراعوان نے بتایا کہ اعظم سواتی کو ان کے سیاسی حریف انتقامی کارروائی کا نشانہ بنا رہے ہیں، پی ٹی آئی رہنما کے خلاف مقدمہ ایف آئی اے رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے درج کیا گیا ہے، پیکا کی سیکشن 20 قابل ضمانت دفعہ ہے، مقدمے میں کریمنل پروسیجر کی دفعات مقدمے کو ناقابل ضمانت بنانے کیلئے شامل کی گئیں ہیں۔
تفصیلی فیصلہ کے مطابق حکومت کی جانب سے اسپیشل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی عدالت میں پیش ہوئے، ان کے مطابق اعظم سواتی نے فوج کے اعلیٰ افسر کے خلاف ہتک آمیز الفاظ استعمال کیے۔
پراسیکیوٹرکے مطابق اعظم سواتی نے پاک فوج کو اپنے افسران کے احکامات کی خلاف ورزی اور بغاوت پر اکسایا اوراسپیشل پراسیکیوٹر نے اعظم سواتی کی ضمانت کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کی۔
تحریری فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے 26 نومبرکو پاک فوج کے ایک اعلیٰ افسر کے خلاف ٹویٹ کیا جسے مختلف ٹویٹر اکاؤنٹس سے ری ٹویٹ کیا گیا اور اعظم سواتی نے اس ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرنے پر دیگر اکاؤنٹس کا شکریہ بھی ادا کیا۔
تحریری فیصلہ میں مزید کہا کہ اعظم سواتی کے خلاف ریاستی اداروں کے خلاف ٹویٹ کرنے پر پہلے بھی پیکا کی سیکشن 20 کے تحت ایک مقدمہ درج ہے۔
اعظم سواتی کو پہلے مقدمے میں 21 اکتوبر کو ضمانت ملی، 26 نومبر کو انہوں نے پھر وہی جرم دہرایا، اعظم سواتی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست مسترد کی جاتی ہے۔