گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے پنجاب اسمبلی کا اجلاس 21 دسمبر شام 4 بجے طلب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پرویزالہٰی کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کر دی ہے۔ تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد اب اسمبلی تحلیل نہیں کی جاسکے گی۔
وزیراعلیٰ پرویزالہیٰ کو پنجاب اسمبلی میں کل 190 ارکان کی حمایت حاصل ہے جس میں تحریک انصاف کے 180 ارکان اور مسلم لیگ ق کے 10ارکان بھی پرویزالہیٰ کے حامی ہیں۔اپوزیشن اتحاد کے ایوان میں180 ارکان ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ ن کے167 اورپاکستان پیپلزپارٹی کے7 ارکان ہیں اور اپوزیشن کو 5آزاد اور راہِ حق پارٹی کے1 رکن کی بھی حمایت حاصل ہے۔تحریک انصاف کے دوست مزاری اور چودھری مسعود احمد پارٹی پالیسی سے باغی ہیں۔ آزاد رکن پنجاب اسمبلی چودھری نثارکا موقف سامنے نہیں آیا۔ عدالت نے پنجاب اسمبلی میں ن لیگ کے 18 ارکان کو کل کے اجلاس میں شرکت کی اجازت دے دی اور حکم دیا ہے کہ اگر ووٹنگ ہوئی تو یہ ارکان ووٹ بھی ڈال سکتے ہیں۔
اسمبلی اجلاس بلانے کے معاملے پراسپیکر سبطین خان اور گورنر پنجاب آمنے سامنے آگئے ہیں۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان،کا کہنا ہے گورنر پنجاب نے اعتماد کا جو ووٹ مانگا ہے اسے غیرقانونی سمجھتا ہوں، پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہم نے ختم نہیں بلکہ ملتوی کیا ہے، جاری اجلاس میں گورنر پنجاب اعتماد کا ووٹ نہیں لے سکتے۔ گورنر پنجاب سے ملاقات کے بعدوزیرداخلہرانا ثناءاللہ کا کہنا تھا کہ کل (بدھ)کے روز پنجاب اسمبلی کااجلاس نہ ہوااور وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ نے اعتماد کا ووٹ نہ لیا تو وزیر اعلیٰ ہاﺅس کو سیل (سیز)کردیا جائے گا۔ گورنر پنجاب اس معاملہ پر کوئی بھی ایکشن لے سکتے ہیں۔
پیپلزپارٹی پنجاب کے پارلیمانی لیڈر حسن مرتضٰی کا کہنا ہے کہ بہت جلد خوشخبری سنیں گے، فیصلہ وہی ہوگا جو زرداری صاحب اور اتحادی چاہیں گے۔ فواد چودھری کا کہا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کے پاس اکثریت نہیں ہے۔ ن لیگ کے پاس 170 یا 172 ووٹ ہیں۔ ق لیگ کے ارکان سے متعلق فیصلہ پارلیمانی پارٹی نے کرنا ہے۔ ہم ووٹنگ کرا دیں گے پی ڈی ایم اپنے ووٹ پورے کرے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پنجاب کا موجودہ آئینی بحران جلد ختم ہونے کی توقع نہیں بلکہ تحریک عدم اعتماد کا معاملہ بھی عدالتوں تک جانے کا امکان ہے۔
ماہر قانون اورایڈووکیٹ جنرل احمد اویس نے کہا ہے کہ جب ایک اجلاس چل رہا ہو تو اس دوران وزیرِ اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے نہیں کہا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس اکتوبر سے چل رہا ہے اس لیے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہنا غیر آئینی ہے جسے اسپیکر رولنگ کے ذریعے مسترد کرسکتے ہیں تاہم اس حوالے سے سپیکر کی رولنگ کو اپوزیشن عدالت میں چیلنج کر سکتی ہے۔ تحریک عدم اعتمادپر انہوں نے کہا کہ پر اس پرعملدرآمد ہو سکتا ہے اور اس کے لیے اجلاس جاری ہونے یا نہ ہونے کی کوئی قید نہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے سینئررہنماحامد خان کا کہنا ہے کہ جس دن اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کی جائے گی۔ اس سے تین دن بعد اور سات دن سے پہلے ووٹنگ ہوگی۔ پہلے تحریک اعتماد کے اوپر ووٹنگ ہوگی، اس کے بعد اعتماد کے لیے ووٹنگ ہوگی۔ جب اعتماد کے ووٹ کے لیے کہا گیا ہے تو پھر تحریک عدم اعتماد کے لیے ووٹنگ نہیں ہوسکتی۔
تجزیہ کاراحمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ اعتماد کے ووٹ کی ضرورت اس لیے تھی کہ وزیراعلیٰ پنجاب کو اپنی مطلوبہ اکثریت پوری کرنی پڑے۔ جس طرح کی صورتِ حال ہے، معاملہ ایک بار پھر عدالتوں میں جائے گا۔ اعتماد کے ووٹ کا مقصد یہ ہوگا کہ پی ٹی آئی کے کچھ اراکین غیرحاضر ہوجائیں۔ عمداً یا اتفاقاً، تو پھر پرویز الٰہی کی حکومت جاتی رہے گی۔اگلے آٹھ دس دن میں یہ معاملہ لاہور ہائیکورٹ میں ہوگا اور پھر یہ سپریم کورٹ بھی جائے گا۔