سال 2018 میں امریکا کے جانز ہاپکنز ہسپتال نے اعلان کیا کہ امریکی مسلح افواج کے ایک ریٹائرڈ فوجی اب تک کے سب سے مہنگے آپریشن کے زریعے ازدواجی زندگی بحال کرنے کیلئے جسمانی اعضاء فراہم کردئے گئے ہیں۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ مریض نے جانز ہاپکنز سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی تھی۔
افغانستان میں ایک لڑائی کے دوران دیسی ساختہ بم پھٹںے سے مذکورہ فوجی کے تولیدی اعضاء، پیٹ کے نچلے حصے اور اس کی ٹانگوں پر بدترین زخم آئے۔ انہیں فوری طور پر علاج کیلئے امریکا شفٹ کیا گیا جہاں 11 سرجنوں کی ایک ٹیم نے مارچ 2018 کے آخر میں 14 گھنٹے کی سرجری کے دوران ان کے پیٹ کے نچلے حصے کے زخمی گوشت کو ایک مردہ عطیہ دہندہ کے ٹشوز سے تبدیل کیا۔
لیکن اس ٹرانسپلانٹ میں مکمل تولیدی اعضاء شامل نہیں تھے۔
جان ہاپکنز یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن میں پلاسٹک اور ری کنسٹرکشن سرجری کے پروفیسر ڈیمن کوونی کا کہنا ہے کہ جان ہاپکنز کی ٹیم نے ابتدائی طور پر فیصلہ کیا تھا کہ تولیدی اعضاء ٹرانسپلانٹ کرنے کا خیال بالکل ہی باہر رکھا جائے۔
پروفیسر ڈیمن نے بتایا کہ عام طور پر جو لوگ اپنے تولیدی اعضاء کھو دیتے ہیں وہ ہارمونز کو تبدیل کرنے کے لیے ٹیسٹوسٹیرون لینے کا انتخاب کرتے ہیں اور اپنی ظاہری شکل کو بحال کرنے کے لیے مصنوعی تولیدی اعضاء حاصل کرتے ہیں۔
ڈیمن کا کہنا ہے کہ تکنیکی طور پر تولیدی اعضاء کی پیوند کاری ممکن ہے، اور یہ وصول کنندگان کو ہارمون ریپلیسمنٹ تھراپی کو ترک کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
”لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ٹرانسپلانٹ شدہ عضو، عطیہ کنندہ (ڈونر) کی جینیاتی اولاد پیدا کر سکتا ہے اور متوفی عطیہ کنندہ کی رضامندی کے بغیر اس سے ایک اخلاقی پیچیدگی پیدا ہوتی ہے جس سے جانز ہاپکنز کے حکام شروع ہی سے بچنا چاہتے تھے۔“
جانز ہاپکنز برمن انسٹی ٹیوٹ آف بائیو ایتھکس کے ڈائریکٹر جیفری کاہن کہتے ہیں، ”اگر آپ تولیدی اعضاء کی پیوند کاری کرتے ہیں، تو یہ مؤثر طریقے سے عطیہ دہندہ کو نہ صرف جسمانی اعضاء عطیہ کرنے والا بلکہ سپرم کا عطیہ کرنے والا بھی بنا دے گا۔“
”یہ رضامندی کے بغیر سپرم ڈونیشن ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہیے۔“
یہ سمجھنے کے لیے کہ یہ کیسے ممکن ہے، تولیدی اعضاء کی عملیات کے بارے میں تھوڑا سا جاننا ضروری ہے۔
اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے یورولوجسٹ مائیکل آئزن برگ بتاتے ہیں کہ “جنین کی نشوونما کے اوائل میں، جراثیمی خلیے جو بنیادی طور پر خلوی دادا دادی یا سپرم کے پردادا ہوتے ہیں نوزائیدہ غدہ تناسلی تک سفر کرتے ہیں۔ یہ جراثیم کے خلیے پھر تقسیم ہو کر اسٹیم سیل بناتے ہیں جو خود کو تقسیم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور خلیوں کی یہ تقسیم نطفہ بناتی ہے۔
”اس لیے، اگر تولیدی اعضاء کو ایک نئے جسم میں ٹرانسپلانٹ کر بھی دیا جائے تو وہ ایسے سپرم بناتے رہیں گے جو عطیہ دہندگان کے ڈی این اے اپنے اندر رکھتے ہوں گے۔“
کوونی کا کہنا ہے کہ ”اگر کوئی شخص عطیہ شدہ تولیدی اعضاء کا استعمال کرتے ہوئے حاملہ کرنے کے قابل ہو، تو اس سے پیدا ہونے والے بچے کا جینیاتی مواد عطیہ دہندہ کا ہوگا۔“
کونی کہتے ہیں، ”اب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس سے اخلاقی سوالات کیوں اٹھتے ہیں۔“
پروفیسر کاہن کا کہنا ہے کہ اسی لیے مردہ عطیہ دہندہ کی اجازت کے بغیر اس کے تولیدی اعضاء لینا خاص طور پر خوفناک ہوتا۔
”آپ نے اس مردہ شخص کو اس کے علم میں لائے بغیر سپرم ڈونر بنا دیا ہے۔“
وہ کہتے ہیں، ”آپ ایک لائن عبور کریں گے، یہ صرف جنسی اور پیشاب کے افعال کی بحالی نہیں، آپ نے ایک مردہ شخص کو دوبارہ بچے پیدا کرنے کی صلاحیت دی ہے، وہ بھی کسی اور کے ساتھ ۔“