پاکستان میں بڑھتا ہوا سیاسی بحران ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ ریاستی بحران کی صورت اختیار کر رہا ہے۔موجودہ حکومت مہنگائی کے خاتمے کا نعرہ لیکر عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار میں آئی۔
تیرہ جماعتی حکومتی اتحاد کی بدقسمتی کہیں یا سیاسی خودکشی کہ جس معاشی بحران اور مہنگائی کا سامنا عمران خان کی حکومت کو تھا ان تمام مسائل کا بوجھ موجودہ حکومت نے اپنے کاندھوں پر لاد لیا۔
آج صورتحال یہ ہے کہ سخت معاشی فیصلوں کے باوجود نہ تو مہنگائی کنٹرول ہو سکی نہ معاشی صورتحال دوبارہ پٹڑی پر چڑھنے کا نام لے رہی۔ الٹا مسلم لیگ ن کو سخت معاشی فیصلوں کی قیمت ضمنی انتخابات میں بدترین شکست کی صورت چکانا پڑی۔
ملکی زرمبادلہ ذخائر 6.7 ارب ڈالر کی کم ترین سطع پر آچکے ہیں۔ایل سیز نہ کھلنے کی وجہ سے سبزیوں، سویا بین اور ادویات کے خام مال سمیت سینکڑوں کنٹینر پورٹس پر پھنسے ہوئے ہیں۔
اگر فوری اقدامات نہ کئے گئے تو اگلے چند ہفتوں کے دوران پاکستان کو خوراک کے بدترین بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔پاکستان نے دسمبر کے پہلے ہفتے ایک ارب ڈالر کے سکوک بانڈز کی ادائیگیاں تو بروقت کردیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگلے چھ ماہ کے دوران 35 ارب ڈالر کی غیر ملکی ادائیگیوں کا بندوبست کہاں سے ہوگا؟ پاکستان کے صرف قرضہ جات کی قسطیں جی ڈی پی کے 80 فیصد کے برابر ہو چکی ہیں۔
پاکستان نے فوری مدد کے لئے سعودی عرب سے 4.7 ارب ڈالر کی درخواست کی ہے۔پاکستان میں موجود سعودی سفیر معاشی مدد کے حوالے سے واضح کر چکے ہیں کہ سعودیہ پاکستان کی مدد سے پیچھے نہیں ہٹے گا لیکن معاشی عدم استحکام کے خاتمے کے لئے پاکستان کو سیاسی عدم استحکام کو ختم کرنا ہوگا۔
اب سیاسی عدم استحکام کیسے ختم ہوگا۔حکومت اور اتحادی جماعتیں دبے دبے لفظوں میں سیلاب کی صورتحال کی وجہ سے حکومت کی مدت میں توسیع چاہتی ہیں۔ تحریک انصاف فوری طور پر عام انتخابات کی صورت سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کی صورت معاشی استحکام دیکھ رہی ہےاور حکمران طبقہ برملا یہ کہ رہا ہے کہ جب تک ہم عوام کو ریلیف نہیں دیں گے تب تک ہم انتخابات میں کیسے جا سکتے ہیں۔
دوسری طرف مقتدر حلقوں کی طرف سے ایک سال کی ٹیکنوکریٹس پر مشتمل نگران حکومت کی تجاویز بھی سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہیں۔معاشی مسائل کا حل کوئی بھی ہو اس پر تو بحث ہو سکتی ہے لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تیزی سے بگڑتے ہوئے معاشی حالات پاکستان کی قومی سلامتی کے لئے بھی بڑا چیلنج بن سکتے ہیں۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم نے بہت تیزی سے اپنے آپ کو دنیا اور علاقائی ممالک کی سیاست اور معیشت سے دور کرلیا ہے۔بجائے اپنی منفرد جغرافیائی اہمیت سے فائدہ اٹھانے کے ہم علاقائی سیاست میں بھی بہت تیزی سے غیر متعلق ہو رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بڑے ممالک اور عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کی تاریخ کے بدترین سیلاب جیسی آفت کے باوجود ہماری مدد کرنے کو تیار نہیں۔
وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کا رویہ پاکستان کے ساتھ درست نہیں۔آئی ایم ایف ہمیں اپنی ڈکٹیشن پر چلانا چاہتا ہے حالانکہ یہ وہی اسحاق ڈار ہیں جو وزیر خزانہ بننے سے پہلے کہتے تھے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات چلانا مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔
آج حالات اس نہج پر ہیں کہ پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط ماننے یا پروگرام ادھورا چھوڑنے کے علاؤہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
شاید حکومت کو بھی اس بات کا ادراک ہوگیا ہے کہ اب اسحاق ڈار کا معاشی جادو بھی چلنے والا نہیں۔ہم بہت تیزی سے گہری معاشی کھائی میں گر رہے ہیں اور باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان بیک ڈور رابطوں میں تیزی آئی ہے۔
گزشتہ تین روز کے دوران وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کی ملاقات سے عندیہ ملتا ہے کہ سیاسی جماعتیں ملک میں جاری سیاسی تناؤ کی کیفیت کو ختم کرنے پر رضامند ہوسکتی ہیں۔کوئی بڑا سیاسی بریک تھرو ہوسکتا ہے۔
ابھی ممکن نہ ہو لیکن اس بات کا احساس تمام سیاسی جماعتوں کو ہوچکا ہے کہ موجودہ معاشی چیلنج پاکستان کی تاریخ کا سب سے منفرد اور سنگین بحران ہے جس سے نبرد آزما ہونے کے لئے تمام ریاستی اور سیاسی فریقین کو اختلافات بھلا کر ایک پیج پر آنا ہوگا۔
اگر ملک کے مسائل کا حل کا فوری انتخابات ہیں تو دو ماہ جلد یا دو ماہ تاریخ سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا۔
پیپلز پارٹی بھی کہہ چکی ہے کہ اگر دو تین ماہ جلدی انتخابات کروانے سے سیاسی بحران کا خاتمہ ہوتا ہے تو ہمیں اس میں کوئی اعتراض نہیں۔تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو سوچنا ہوگا موجودہ سیاسی تناؤ اور تقسیم کی وجہ سے لوگوں کا جمہوری نظام سے اعتماد اٹھ رہا ہے۔
حکومت اور حزب اختلاف کی رسہ کشی کی وجہ سے پارلیمنٹ جیسا ادارہ غیر فعال ہوگیا ہے۔لوگ موجودہ پارلیمانی نظام پر سوال اٹھا رہے ہیں، یہ بحث بھی موجود ہے کہ کیا وجہ ہے ہم مسائل حل کرنی کی بجائے خود بگاڑ کی وجہ بن رہے ہیں۔
بدلتے ہوئے عالمی نظام میں ہمارے لئے امکانات کے ساتھ نئے چیلنجز بھی پیدا ہو رہے ہیں۔عالمی تبدیلیوں اور معاشی امکانات سے فائدہ اٹھانے کے لئے ملک میں استحکام بنیادی شرط ہے۔
اگر ملک میں استحکام نہیں ہوتا اور معیشت اسی رفتار سے ہمارے ہاتھ سے نکلتی رہی تو یاد رہے سویت یونین جیسی سُپر پاور کی تباہی کی وجہ بھی معاشی بحران ہی تھا۔معاشی بحران کا واحد حل سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ اور اسکا واحد راستہ فوری انتخابات اور نیا مینڈیٹ ہے۔
ہمیں انا اور سیاسی تقسیم کو ختم کرکے آگے بڑھنا ہوگا وگرنہ موجودہ سیاسی تناؤ خدانخواستہ کسی بڑے بحران کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔
مصنفہ لندن اسکول آف اکنامکس سے پوسٹ ڈاکٹریٹ ہیں اور آج کل ائیر وار کالج سے وابستہ ہیں۔