پاکستان میں ڈالر کی قلّت بد سے بدتر ہوتی دکھائی دے رہی ہے، تاجروں کا کہنا ہے کہ انہیں لیٹر آف کریڈٹ (ایل سیز) کھولنے میں دشواری کا سامنا ہے۔
منی ایکسچینجرز کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قلت ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے ہے اور ڈالر کے سرکاری ریٹ اور اصل مارکیٹ قیمت کے درمیان بڑا فرق ہے۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل ظفر پراچہ کہتے ہیں کہ گرے مارکیٹ میں ڈالر زیادہ ریٹ پر فروخت ہو رہا ہے۔ جس سے سرمایہ کار ملک میں سرمایہ کاری سے کترا رہے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ بینکوں میں ڈالر کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہیں، تاہم اوپن مارکیٹ میں کوئی کمی نہیں ہے۔ تاہم، اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے آسانی سے دستیاب نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ سرکاری ریٹ 234 روپے ہے۔ جبکہ گرے مارکیٹ میں ریٹ 255 روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔
ڈالر کی قلت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب حکومت سخت معاشی نقطہ نظر اور کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر سے نمٹنے کی کوشش کرتی ہے۔
دوسری جانب صدرسائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری ریاض الدین سمیت دیگر صنعت کاروں نے ڈالرکی دستیابی یقینی بنانے اور ضروری اشیاء درآمد کرنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
ریاض الدین کا کہنا ہے کہ درآمد پر غیر اعلانیہ پابندی، درآمدی مال کی کلیئرنس نہ ہونے اور ڈالر کی عدم دستیابی پر صنعت کار تشویش میں مبتلا ہیں۔ صنعتی خام مال، مشینری، پرزہ جات کی بروقت کلیرنس نہ ہونے کی وجہ سے صنعتیں بند ہورہی ہیں۔
انہوں نے تحفظات کا اظہار کیا کہ گیس بحران کے باعث صنعتیں پہلے ہی بندش کا شکار ہیں، صنعتیں بند ہونے سے بیروزگاری کا سیلاب آجائے گا۔ زرمبادلہ بچانے کے لیے غیر ضروری اشیاء کی درآمدات مؤخر کرتے ہوئے ضروری اشیاء کی درآمدات کی اجازت دی جائے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کہہ چکے ہیں کہ ڈیفالٹ کا کوئی خطرہ نہیں، تاہم آئی ایم ایف یا دوست ممالک سے رقم نہیں آئی۔
نومبر میں بیرون ملک پاکستانیوں نے دو ارب 10 کروڑ ڈالر کی ترسیلات پاکستان بھیجیں، اسٹیٹ بینک کے مطابق مالی سال کے پانچ ماہ کے دوران ترسیلات میں 9.6 اضافہ ہوا۔
رواں مالی سال جولائی سے نومبر تک ترسیلات کی مالیت 12 ارب ڈالر رہی، اس دوران سعودی عرب سے دو ارب 95 کروڑ ڈالر بھیجے گئے۔
متحدہ عرب امارات سے دو ارب چھبیس کروڑ ڈالر آئے، جبکہ دیگر عرب ممالک، یورپی یونین اور برطانیہ سے ترسیلات میں کمی ہوئی۔
امریکا سے آنے والی ترسیلات 4.3 تین فیصد بڑھ گئیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’ملک میں کوئی معاشی ایمرجنسی نہیں لگ رہی‘
آئی ایف ایم نے 9 دسمبر کو اسلام آباد میں سینئر وزراء کے اجلاس کی صدارت بھی کی، جہاں شرکاء نے اتفاق کیا کہ ڈالر کی اسمگلنگ کو روکنے کی ضرورت ہے۔
حال ہی میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ پاکستان کے کئی غیر ملکی مشنز کو زرمبادلہ کی کمی کی وجہ سے چار ماہ سے تنخواہیں نہیں دی گئیں۔ تاہم، وزارت خزانہ نے 14 دسمبر کو کہا کہ ”اب فنڈز جاری کر دیے گئے ہیں۔“