ایک جانب عمران خان جلد سے جلد انتخابات کرانے کیلئے وفاقی حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں تو دوسری جانب حکومت اسمبلیوں کی مدت میں مزید توسیع کے خواب دیکھ رہی ہے۔
وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں میزبان اور سینئیر اینکر عاصمہ شیرازی کے ساتھ گفتگو میں واضح کیا ہے کہ ناصرف اسمبلی اپنی مدت پوری کرے گی بلکہ حکومت کو مزید وقت بھی ملنا چاہئے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسمبلی میں توسیع کے حوالے سے اگست میں بات کریں گے۔
پی ٹی آئی چئیرمین عمران خان نے 17 دسمبر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تاریخ دینے کا اعلان کیا ہے، اس حوالے سے وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان اسمبلیاں توڑتے ہیں تو ہم ان اسمبلیوں پر الیکشن کرائیں گے۔
’مہینہ دو مہینہ پہلے اسمبلیاں تحلیل ہوں تو پھر الیکشن نہیں ہوسکتے‘
اسمبلیوں کی تحلیل کے سوال پر اسحاق ڈار نے کہا کہ ”آئین میں ایک مدت ہے، اگر اس دوران استعفے آئیں تو الیکشن نہیں ہوسکتے، اگر مہینہ دو مہینہ پہلے اسمبلیاں تحلیل ہوں تو پھر الیکشن نہیں ہوسکتے ، لیکن اگر ٹیکنکلی اب تحلیل کرتے ہیں تو انتخابات ہوسکتے ہیں۔“
ن لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ عمران خان اسمبلیاں توڑ دیں تو ہمارے لیے آسانی ہوجائے گی، اسمبلیاں ٹوٹیں تو 90 روز میں انتخابات ہوں گے۔
’آئی ایم ایف مطالبہ کرسکتا ہے وہ قرض دیتا ہے‘
آئی ایم ایف کے حالیہ مطالبات پر ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف قرضہ دینے والا ہے ہم اسے ڈکٹیٹ نہیں کرسکتے ، آئی ایم ایف مطالبہ کرسکتا ہے وہ قرض دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ابھی ہمیں اس آئی ایم ایف پروگرام کو مکمل کرنا ہے، سیلاب اور اس سے پیدا ہونے والے مالی مسائل اور ادائیگیوں سے نمٹنا ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ کئے معاہدے پر عمل کریں گے، آپس کے اختلافات اپنی جگہ یہ ریاست کا معاملہ ہے، ہم نے 15، 20 پوائنٹس کی لسٹ تیار کی ہے، پیٹرولیم لیوی و دیگر پوائنٹس پر عمل کریں گے۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف مطالبہ کرسکتا ہے وہ قرض دیتا ہے۔
’ملک میں کوئی معاشی ایمرجنسی نہیں لگ رہی‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں ہوگا، ملک میں کوئی معاشی ایمرجنسی نہیں لگ رہی، منفی باتوں سے بیرون ملک بھی منفی تاثر گیا ہے۔
سابق حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان نے قرضے لے کر قرضے چکائے، جس سے ملکی قرضوں میں مزید اضافہ ہوا۔
پچھلی حکومت میں کی جانے والی قرضوں کی ادائیگیوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ عمران نیازی نے بڑے بڑے جلسوں میں کہا کہ ہم نے 35 بلین ڈالرز واپس کئے پچھلی حکومتوں کے، لیکن اس کے علاوہ 14 بلن ڈالرز کا قرضہ بھی لیا۔
عمران پر مقدمات، ’صدر سے بات نہیں ہوئی‘
صدر عارف علوی سے ہونے والی ملاقاتوں کے سوال پر انہوں نے کہا کہ صدر مملکت نے بات چیت کے دوران مدبرانہ اور ذمہ داری کا ثبوت دیا۔
صدر مملکت کو میں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) بات کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے لیکن یہ مشروط نہیں ہوسکتا، ہمارے کچھ لوگ اس معامے میں فعال رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ صدر مملکت نے صرف قبل از وقت انتخابات کی شرط رکھی عمران خان کے مقدمات پر کوئی بات نہیں ہوئی۔
’آپ کو خبر زیادہ ہوگی‘
نواز شریف کو پہنچنے والے پیغام کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ باجوہ صاحب کی ایکسٹینشن کا کوئی دباؤ نہیں تھا، باقی لندن کی خبر آپ کو زیادہ ہوگی۔
وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ سے مذاکرات کے سوال پر انہوں نے کہا کہ پرویز الہٰی اب ہمارے لئے آپشن نہیں ہیں، انہوں نے بہترین موقع کو ضائع کیا۔
’پاکستان نہ پہلے کبھی ڈیفالٹ ہوا اور نہ اب ہوگا‘
پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے سوال پر وزیر خزانہ اسحاق ڈارنے کہا کہ مایوسی کی ضرورت نہیں ہے، ”پاکستان نے نہ پہلے کبھی ڈیفالٹ کیا نہ اب کرے گا، یہ جو قیاس آرائیاں ہیں چند مہینوں سے اور جو منفیت پھیلائی جارہی ہے کہ پاکستان کچھ ادائیگیاں نہیں کرسکے گا، وہ ختم ہوا تو کہا گیا کہ پاکستان بانڈز کی ادائیگی نہیں کرسکے گا۔ گزشتہ ہفتے ہم نے ملکی تاریخ کی بھاری ترین ادائیگی تقریباً سوا دو ارب ڈالرز کی کی۔“
وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ ہمارا ڈیٹ اسٹاک نیچے گیا ہے اور اس کے ساتھ ہمارے زرِ مبادلہ کے ذخائر بھی نیچے گئے ہیں، لیکن اس کے متبادل اِن فلوز آنے والے ہیں۔ ہم نے اپنا پورے سال کا کیش تیار کیا ہوا ہے، ”اس لئے میں بڑی ذمہ داری کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ اللہ نے چاہا تو پاکستان کے دیفالٹ کرنے کا چانس زیرو ہے۔“
انہوں نے بتایا کہ ایٹمی دھماکے ہوئے تو وہ پاکستان کیلئے سب سے خطرناک وقت تھا، جب بین الاقوامی لوگ پاکستان کو سزا دینا چاہتے تھے، اس وقت ملک کے سامنے مشکلات کا پہاڑ کھڑا تھا اور ہم نے وہ بھی عبور کیا۔
اسحاق ڈار نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 6 نومبر 1998 کو جب مجھے تجارت کے ساتھ وزارت خزانہ کے ذمہ داری دی گئی تو اس وقت اسٹیٹ بینک کے پاس 414 ملین ڈالرز تھے اور ہمیں دو بلین ڈالرز کی ادائیگیاں کرنی تھیں، اس وقت ہماری امپورٹس 9 ملین ڈالرز کی تھی، ہم نے آٹھ مہینوں میں رکی ہوئی ادائیگیاں بھی کیں، اور ان 414 ملن کو 2.399 بلین ڈالرز تک پہنچایا۔
انہوں نے کہا کہ اس بار ہم نے بولڈ فیصلے کیے ہیں، ہم نے سب سے پہلا فیصلہ یہ کیا کہ پیرس کلب نہیں جائیں گے، ہم اب آئی ایم ایف پروگرام کو ڈیلیور کریں گے، ہوسکتا ہے کہ یہ ٹیم کچھ دوسری طرح بات چیت کرتی لیکن اب جو کمنٹمنٹ ہوگئی اسے پورنا کرنا ہوگا چاہے وہ صحیح ہوں یا غلط۔
’اپنا اپنا نظریہ‘
مفتاح اسماعیل کے ملک کے ڈیفالٹ ہونے کی طرف جانے کے بیان پر ان کا کہنا تھا کہ ہر ایک کی اپنی اپنی سوچ ہے ہر ایک کا اپنا اپنا طریقہ ہے۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ 1995 میں پاکستان کو فری مارکیٹ میں لے جانے والی ن لیگ تھی، اس سے پہلے ڈالر کی قیمتوں کا فیصلہ حکومت کرتی تھی، ہم نے پہلی مرتبہ اس کا اختیار مارکیٹ کو دیا جو آج تک چل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کے ذمہ داری ہے کرنسی اسمگلر یا ہنڈی والا اثر انداز ہوتو اس کے خلاف کارروائی کرے، ہم نے بارڈرز کو سیل کیا، ایجنسیوں کو اختیارات دئے کہ کارروائی کریں۔ ملک میں گندم، کھاد، یوریا اسمگل ہو رہا ہے اور ہم ڈالرز کے عوض باہر سے خرید رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر انٹربینک اور ایکسچینج کمپنیوں کے ریٹ میں 10 سے 15 روپے کا فرق ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اسمگلنگ ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہنڈی والوں نے اپنی گیم کھیلی اور پاکستان میں مہنگائی کو آسمان پر لے گئے، اس کے نتیجے میں تقریباً 20 ملین ڈالرز یعنی تقریباً چار ہزار ارب روپے پاکستان کے قرض میں اضافہ ہوگیا، جبکہ آپ کی ایکسپورٹ پچھلے تین سال میں صرف 800 ملین ڈالرز بڑھی۔ آخری سال میں جو ایکسپورٹ بڑھی وہ صنعتوں کو چار پانچ سو ملین ڈالرز قرضہ دینے کی وجہ سے بڑھی۔
اسحاق ڈار نے بتایا کہ سال 2017-18 میں ملک کی ایکسپورٹ 12.4 فیصد بڑھی، اگر ”اسی ماڈل پر چلتے تو جو چار ہزار ارب کا بیڑہ غرق ہوا نقصان ہوا اس سے اگلے 16 سال اس سے پورا کرسکتے تھے۔“
وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے 2013 میں بھی ملک کو معاشی بحران سے نکالا، معاشی تباہی کے ذمہ داروں کے تعین کیلئے کمیشن بنانا چاہئے۔
ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ ”آپ کی جو معیشت زمین بوس ہوئی ہے اس کا ایک میجر فیکٹر یہ ہے کہ آپ نے اپنی کرنسی کو مادر پدر آزاد چھوڑ دیا، لوگوں نے اپنے کروڑوں اربوں روپے بنائے اور قوم کو کھربوں کا نقصان ہوگیا۔“