سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اسپیکر کو استعفے منظور کرنے کا حکم دیں تو کیا پی ٹی آئی تیارہے؟۔
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت سماعت ہوئی۔
جسٹس منصورشاہ نے پوچھا کہ تحریک انصاف کے لوگ کیا قومی اسمبلی کے رکن ہیں یا نہیں؟۔
جس پر عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ تحریک انصاف کے تمام ارکان اسمبلی سے استعفے دے چکے ہیں، کچھ نشستوں پر ضمنی الیکشن ہوئے اور پی ٹی آئی کامیاب ہوئی ، سیاسی حکمت عملی کے تحت اسپیکر استعفے منظور نہیں کررہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کسی حلقے کوغیر نمائندہ اور اسمبلی کو خالی نہیں چھوڑا جاسکتا، ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی ارکان کو اسپیکر کے سامنے پیش ہونے کا کہا تھا۔
وکیل عمران خان نے کہا کہ جن کے استعفے منظور ہوئے وہ بھی پیش نہیں ہوئے تھے، اسپیکر ایک دن سو کر اٹھے اور چند استعفے منظور کرلیے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اسپیکر ایک ساتھ تمام استعفے کیوں منظور نہیں کرتے؟ جس رکن کو مسئلہ ہوگا اسپیکر کے فیصلے پر اعتراض کردے گا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ اسپیکر کو استعفے منظور کرنے کا حکم دیں تو کیا پی ٹی آئی تیار ہے؟۔
جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت ایسا حکم کرتی ہے تو اس کے لئے مکمل تیار ہیں، پی ٹی آئی تو انتخابات کرانے کا ہی مطالبہ کر رہی ہے، موجودہ حکومت کرپشن اورعوامی اعتماد توڑنے کے نتیجے میں آئی۔
جسٹس منصورشاہ نے کہا کہ پی ٹی آئی کا حق ہے کہ وہ اسمبلی سے استعفے دے یا نہ دے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ موجودہ اسمبلی عوامی اعتماد توڑ کر بنی ہے اور نامکمل ہے، جس پر جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ پی ٹی آئی کا یہ جانبدارنکتہ نظر ہے کہ اسمبلی نامکمل ہے، زبانی باتیں نہ کریں، اسمبلی نہیں پسند تو سیٹیں بھی چھوڑیں۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ہم تو روزانہ انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں ۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہ تمام سیاسی بحث ہے جس کو سیاسی مقام پر ہونا چاہیئے، عوامی مفاد کی بات ہو تو پی ٹی آئی کا اسمبلی میں نہ ہونے کا سوال غیرمؤثر ہوجاتا ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ استعفوں کا سوال سیاسی نہیں آئینی ہے، استعفے منظور نہیں ہورہے تو پی ٹی آئی عدالت سے رجوع کیوں نہیں کرتی؟۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالتوں میں پی ٹی آئی کئی درخواستیں زیرالتوا ہیں۔
وکیل عمران خان نے کہا کہ میرا مطالبہ عوام میں جانے اور عام انتخابات کا ہے، اس سے زیادہ اور کیا کروں؟ سیاسی سوالات کا قانونی جواب نہیں دیا جاسکتا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ سیاسی معاملے پرعدالت کو تبصرہ نہیں کرنا چاہیئے، اسمبلی جانا یانہ جانا پی ٹی آئی کا سیاسی فیصلہ ہے، اداروں کو فعال کرنا ہوگا، پارلیمان ایک بنیادی ادارہ ہے، بڑی سیاسی جماعت اسمبلی سے باہر ہو تو وہ فعال کیسے ہوگی یہ بھی سوال ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ اسمبلی میں عوام اعتماد کرکے بھیجتے ہیں، اسمبلی اسی صورت چھوڑی جا سکتی ہے جب رکن جسمانی طور پر جانے کے قابل نہ رہے، ارکان اسمبلی کو اپنی آواز ایوان میں اٹھانی چاہیئے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ کیا سینیٹ میں نیب ترامیم پر بحث ہوئی تھی؟ ایوان میں قانون پر بحث ہی نہ ہو تو استعفے کے علاوہ کیا حل ہے؟ جس پر وکیل عمران خان نے بتایا کہ سینیٹ سے بھی ترامیم بغیر بحث منظور کرائی گئیں۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہوگئے جبکہ جنوری کے دوسرے ہفتے میں حکومت کے وکیل مخدوم علی خان دلائل کا آغاز کریں گے۔