وفاقی کابینہ نے گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت اجلاس میں ریکوڈک منصوبے کی حتمی ڈیل پر دستخط کرنے کی باضابطہ منظوری دے دی۔ معاہدے پردستخط 15 دسمبرکو کیے جائیں گے۔
۔وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت سزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس ضمن میں وزارت پٹرولیم اور دیگر وزارتوں کے حکام کو باضابطہ اجازت بھی دے دی گئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بی این پی (مینگل) اور جے یو آئی (ف) سے تعلق رکھنے والے کابینہ ارکان احتجاجاً اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔
وزیراعظم ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق اجلاس میں ریکوڈک منصوبے کی تنظیم نو پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان ریکوڈک منصوبے سمیت تمام سرمایہ کاری کے منصوبوں میں سرمایہ کاروں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے گی اوران سے کیے گئے تمام وعدے پورے کیے جائیں گے۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ ریکوڈیک پراجیکٹ کی تنظیم نوکے حتمی معاہدوں پر قانونی رائے کے لیے آئین کے آرٹیکل 186کے تحت صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے 9 دسمبر 2022 کو اپنی رائے دی کہ ریکوڈیک پراجیکٹ کی تنظیم نوکا عمل شفاف تھا اوراس سلسلے میں جن معاہدوں پر دستخط کیے جارہے ہیں وہ قانون کے عین مطابق ہیں۔ وفاقی کابینہ کو بتایا گیا کہ پارلیمنٹ میں زیربحث فارن انوسٹمنٹ پروموشن و پروٹیکشن بل 2022 ترمیمی ایکٹ کے بارے میں سپریم کورٹ کی رائے پہلے ہی لی جاچکی ہے۔
وفاقی کابینہ نے پٹرولیم ڈویژن کی سفارش پر ریکوڈیک پراجیکٹ کی تنظیم نو کے لیے حتمی معاہدوں پر دستخط کی منظوری دے دی۔ رولز آف بزنس 1973کے تحت سیکرٹری/ایڈیشنل سیکرٹری پٹرولیم ڈویژن کو مذکورہ معاہدوں پر حکومت پاکستان کی طرف سے دستخط کرنے کی بھی منظوری دی گئی۔
وفاقی کابینہ نے ریکوڈیک کی تنظیم نو کے حوالے سے اسٹیٹ اونڈانٹرپرائزز(ایس او ایز)اور ان کے اسپیشل پرپزوہیکلز ،حکومت بلوچستان کے اسپیشل پرپز وہیکلزاور ریکوڈیک پراجیکٹ کمپنی کے لیے ریگولیٹری فریم ورک کی بھی منظوری دے دی۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ اتحادی جماعتوں سے طے پایا تھاکہ یہ قانون سازی ریکوڈک منصوبے کی حد تک ہے۔
اس ضمن میں بعض قانونی رکاوٹیں دور کرنے کے لئےکابینہ کی 5 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں وزیر قانون کے علاوہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر تجارت سید نوید قمر، اقتصادی امور ڈویژن کے وزیر سردار ایاز صادق شامل ہیں۔
کابینہ کمیٹی اتحادی جماعتوں کے قائدین سے بات چیت کرے گی اور انہیں اعتماد میں لے کر ان کے تحفظات دور کرے گی۔ بل میں ترمیم متعلقہ فریقین کی مشاورت سے کی جائےگی۔