منگل کو کاروباری دن کے اختتام پر انٹربینک میں ڈالر گزشتہ روز کے مقابلے میں پانچ پیسے کے اضافے کے ساتھ 224.69 روپے پر بند ہوا۔ جبکہ اوپن مارکیٹ میں آج ڈالر کی قیمت 234 رہی۔
اوپن مارکیٹ اور انٹربینک میں ڈالر کی قیمت میں نو روپے 31 پیسے کا بڑا فرق دیکھنے کو ملا، جو تقریباً سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے دور کی قیمتوں میں فرق کے قریب پہنچ چکا ہے۔ مفتاح اسماعیل کے دور میں یہ فرق 10 روپے سے تجاوز کرگیا تھا اور وہ ڈالر کو قابو کرنے میں کام نظرآتے تھے۔
حالیہ فرق کی وجہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قلت بتائی جارہی ہے۔ ذخیرہ اندوزوں نے ڈالر ذخیرہ کرلیا ہے اور حکومت کی جانب سے بھی مارکیٹ میں ڈالر ریلیز نہیں کئے جارہے۔
مفتاح کی ناکامی کے بعد اسحاق ڈار نے دبنگ انٹری لی، وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو ڈالر کی قیمت کو قابو رکھنے کے دعویدار تھے، تاہم اب وہ بھی اس صورتِ حال میں ناکام نظر آتے ہیں۔ کیونکہ ایک جانب ڈالر کا سرکاری نرخ 224 سے کچھ اوپر تک پہنچ چکا ہے تو دوسری جانب جب درآمد کنندگان ڈالر کے لیے بینکوں سے رابطہ کرتے ہیں تو انہیں ڈالر فراہم نہیں کیے جاتے، جبکہ گرے مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 240 روپے سے اوپر جا چکی ہے۔
پاکستان میں اس وقت ڈالر کی قلت شدت اختیار کرچکی ہے، درآمدی کارگو کی کلیئرنس کے لیے ڈالر دستیاب ہی نہیں۔ جس کی وجہ سے بینکس ایل سیز (لیٹر آف کریڈٹ) نہیں کھول رہے اور ادویہ ساز اداروں نے بھی ملک میں بحران کی گھنٹی بجا دی ہے۔
صرف فارما انڈسٹری ہی نہیں ملک میں درآمد کی جانے والی اشیائے ضروریہ جیسے پیاز، ٹماٹر اور لہسن وغیرہ کے کنٹینرز بھی کراچی بندرگاہ پر پھنسے ہوئے ہیں۔ پاکستان فروٹ اینڈ وجیٹیبل ایکسپورٹرز (پی ایف وی ای) کا کہنا ہے کہ بینکس ڈالر کی قلت کو وجہ بنا کر شپمنٹ دستاویز جاری نہیں کر رہے۔
ملک کا درآمدی مال جس میں تیل، خوردنی تیل، ادویات، برآمدی شعبے کا خام مال، مشینری و پلانٹس اور دوسرے شعبوں کے لیے منگوائے جانے والے درآمدی کارگو بینکوں کی جانب سے ایل سی کے لیے ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے بندرگاہ پر پھنسے ہوئے ہیں۔
ایسی صورتِ حال میں اسٹیٹ بینک بھی بے بس نظر آرہا ہے، اور ردعمل میں ترجمان کا صرف اتنا کہنا ہے کہ جو بینک ایل سی نہیں کھول رہے ان کی نشاندہی کریں۔
ملک میں ڈالر کی آمد کے ذرائع سکڑتے جا رہے ہیں اور بیرونی قرضے کی ادائیگی کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر چار سال کی نچلی سطح 6 ارب 71 کروڑ پر آچکے ہیں۔
اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک میں ڈالر کی قیمتوں میں فرق کو کم یا ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں ڈالر آئے، اور اس وقت ملک میں ڈالر کہیں سے نہیں آرہے۔
ملک میں ڈالر لانے والے تین اہم ذریعے برآمدات، ترسیلات زر اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی گذشتہ چند مہینوں میں گروتھ منفی ریکارڈ کی گئی ہے۔
فی الحال سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کی مدد کا اعلان کیا گیا ہے، لیکن اس مدد سے آنے والے ڈالرز بھی گزشتہ ملکی قرضوں کی ادائیگی میں چلے جائیں گے، کیونکہ پاکستان کو رواں مالی سال جون کے اختتام تک 16 ارب ڈالرز قرض واپس کرنا ہے جس کے لیے پاکستان نے سعودی عرب سے مزید 4.2 ارب ڈالر کی درخواست کی تھی۔