بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام میں تین سے چار اہم شخصیات کی شمولیت نے ایک ایسا ماحول بنایا ہوا ہے کہ جیسے بلوچستان میں اگلی حکومت جے یو آئی کی ہوگی، جبکہ دوسری طرف خیبر پختونخوا جو دو بار تحریک انصاف کو جتوا کر اپنی تاریخ بدل چکا ہے اب کی بار کیا فیصلہ کرے گا۔
کیا مولانا فضل الرحمان کی جماعت خیبر پختون خواہ میں آئیڈیل صورتِ حال میں نہیں ہے اور اسی لئے اس بار مولانا فضل الرحمان کا ہدف ہوم گراونڈ کی بجائے بلوچستان ہے؟
یہ معاملہ اور اور موجود کچھ دوسرے سوالات کے بارے میں جاننے کی کوشش میں آج ڈیجیٹل نے دونوں صوبوں کے سینئر صحافیوں سے گفتگو کی تو اکثریت کی رائے مولانا فضل الرحمان کی جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) کو ایک مضبوط پوزیشن میں دیکھتی نظر آئی۔
اگر ہم بات کریں تو 1970 کے بعد 2013 اور 2018 دو ایسے انتخابات گزرے ہیں کہ جب جمعیت بلوچستان حکومت کا حصہ نہیں رہی، باقی تمام ادوار میں جمعیت حکومت کا حصہ رہی ہے اور صوبے کی پارلیمانی سیاست کی ایک اہم حقیقت بھی ہے۔
تاہم 1970 سے آج تک جمعیت بلوچستان میں اپنا وزیر اعلیٰ لانے میں کامیاب نہ ہو سکی، جس کی بڑی وجہ بلوچستان میں جمعیت کا مینڈیٹ زیادہ تر پشتون علاقوں سے سامنے آتا ہے۔
لیکن اب جمعیت بلوچ علاقوں سے الیکٹیبلز تصور کئے جانے والے نواب اسلم رئیسانی ، ظفر زہری اور امان اللہ نوتیزئی کی جمعیت میں شمولیت سے یہ گمان کیا جارہا ہے کہ جمعیت اب وزارت اعلیٰ کی مسند کی دوڑ میں کسی دوسری جماعت سے پیچھے نہیں رہے گی۔
اس وقت جمعیت کے اراکین کی تعداد گیارہ ہے، سیاسی حلقے اس میں بلوچ علاقوں سے چار پانچ نشستوں کے اضافے کی صورت میں جمعیت کو اگلی حکومت بناتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
تاہم یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ جمعیت کی نشستیں بلوچ علاقوں سے بڑھیں اور پشتون علاقوں سے کم نہ ہوں، تو ہی جمعیت علماء اسلام (ف) بلوچستان حکومت کے قیام کیلئے اہم ہوگی۔
بلوچستان کے سینئر صحافی رضا الرحمان نے بدلتے حالات پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں جس تیزی سے جمعیت میں شمولیت ہورہی ہے اس کی وجہ مذہبی رجحان بھی ہے جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جو جمعیت کو بڑی پارلیمانی جماعت کے روپ میں اس بار وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں شامل کرسکتی ہے۔
دوسری طرف آنے والے دنوں میں بی اے پی کے لوگ پیپلز پارٹی میں جاسکتے ہیں اور ممکنہ مخلوط حکومت کیلئے جمعیت علمائے اسلام، نیشنل پارٹی اور پیپلزپارٹی اہم ہونگی۔
صحافی شاہد رند سمجھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کی جماعت خیبر پختون خواہ میں بڑی آئیڈیل صورتحال میں نہیں ہے، اس لئے اس بار مولانا فضل الرحمان کا ہدف بلوچستان ہے تاکہ وہ دو صوبوں میں پنجہ آزمائی کریں تو کم از کم ایک صوبے میں وزیر اعلیٰ ان کی جماعت کا ہو۔
ان کے خیال میں اس وقت جمعیت علماء اسلام کا گراف ایسے اٹھ رہا ہے جیسے 2018 کے انتخابات سے چند ماہ قبل بی اے پی کا اٹھا تھا اور ممکن ہے جمعیت علمائے اسلام بڑی پارلیمانی جماعت بنے۔
اس کے لئے ہمیں پشتون علاقوں میں محسن داوڑ کی جماعت اور منظور پشتین پر گہری نظر رکھنی ہوگی اگر وہ پارلیمانی سیاست میں اترتے ہیں تو اس کا نقصان پشتون قوم پرست جماعتوں کو ہوگا اور اس کا بھی فائدہ جمعیت اٹھائے گی۔
2008 میں (ق) لیگ بلوچستان میں 22 نشستوں کے ساتھ بڑی پارلیمانی جماعت ہونے کے باوجود حکومت نہیں بنا سکی تھی، اور 10 نشستوں کے ساتھ پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی تھی، اسی طرح 2013 میں ن لیگ بڑی جماعت تھی لیکن آٹھ نشستوں کے ساتھ مری معاہدے کے تحت ڈاکٹر مالک بلوچ وزیر اعلیٰ بلوچستان بنے تھے۔
صحافی شاہد رند کا یہ سمجھنا کہ مولانا فضل الرحمان کی جماعت خیبر پختون خواہ میں بڑی آئیڈیل صورتِ حال میں نہیں اس میں کتنی حقیقت ہے یہ جاننے کے لئے آج ڈیجٹیل نے خیبر پختونخوا کے سینئر صحافیوں سے بات چیت کی۔ اس کے جواب میں خیبر پختونخوا کے سینئیر صحافی محمود جان بابر جے یو آئی کو 2013 اور 2018 کی پوزیشن سے بہتر دیکھتے نظر آتے ہیں۔
ان کے مطابق اب کی بار حالات بہت مختلف ہیں۔ بلدیاتی الیکشن کے زریعے جے یو آئی مقامی سطح تک چلی گئی ہے جہاں 7 ڈیوژنل ہیڈ کواٹرز میں مئیر کی تین نشتسیں جمعیت کے پاس ہیں، وہاں تحصیل کی سطح پر بھی بڑی تعداد میں ان کے نمائندے موجود ہیں۔ پشاور میں مئیر اور گورنر موجود ہیں۔
محمود جان، غلام علی کو ایک ایسا سیاستدان سمجھتے ہیں جو الیکشن میں جیتنا جانتا ہے، بھلے ہی اس کے پاس ووٹ کم کیوں نہ ہوں۔
خاص طور پر اگر بات کریں پشاور ویلی کی تو گورنر نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ دوسری طرف جنوبی اضلاع میں پہلے ہی جمیعت کا بھرپور ووٹ بنک ہے۔ بس ضرورت اوپن فیلڈ کی ہے جو اس وقت ان کے پاس موجود ہے۔
محمود جان بابر کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کا توڑ صرف جمیعت علماء اسلام (ف) کے ہی پاس ہے اس لئے کئی الکٹیبلز اُن سے رابطے میں ہیں۔
اسی سے ملتے جلتے خیالات سینئر صحافی کاشف الدین کے بھی ہیں جن کے خیال میں غلام علی کا آنا ایک صاف اشارہ ہے کہ غلام علی جمیعت کے لئے پشاور ویلی کا حصول اور اس کو ممکن بنا سکتے ہیں۔
کاشف کے مطابق جہاں تک نوشہرہ کی بات ہے تو پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خٹک پہلے ہی جے یو آئی کا حصہ بن چکے ہیں، جبکہ دوسرے بھائی سے متعلق پاکستان پیپلز پارٹی دعوے کرتی نظر آتی ہے جہاں بعد میں سیٹ ایڈجسمنٹ کے زریعے تحریک انصاف کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔
مردان کا ایک اہم سیاسی خاندان سینیٹر دلاورخان سمیت جے یو آئی میں شمولیت اختیار کر چکا ہے۔
کاشف الدین کے خیال میں نہ صرف اندرونی حالات بلکہ سٹریٹیجک منظر نامہ بھی مولانا فضل الرحمان کے لئے موافق نظر آتا ہے۔
تاہم سینئر صحافی اور ڈیلی ڈان کے ایڈیٹر نارتھ اسماعیل خان اس سے مختلف سوچتے نظر آتے ہیں، ان کے خیال میں خیبر پختونخوا میں معاملات ہوا کا رخ دیکھ کر طے کئے جاتے ہیں۔ اس میں پولیٹیکل اور سیکیورٹی دونوں وجوہات شامل ہوتی ہیں۔ کافی ساری چیزیں ابھی طے ہونا باقی ہیں۔ عدالتیں، الیکشن کمیشن اور امن اومان کے حالات۔
اسماعیل خان کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ جے یو آئی کے پاس ایک بڑا ووٹ بنک ہے، لیکن یہ پولیٹکیل الائنسز کے بننے کے بعد اندازہ ہو گا کہ صوبہ کس کے پاس جا رہا ہے۔ اسی کے تناظر میں الیکٹیبلز بھی فیصلہ کریں گے، کیونکہ گزشتہ ضمنی انتخابات میں بھی الیکٹرولر الائنس کا خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا۔