سوشل میڈیا پرایک اسکرین شاٹ وائرل ہو رہا ہے جس میں ایک ”فیک فالوور آڈٹ“ رپورٹ میں دکھایا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے 60 فیصد سے زائد فالوورز جعلی ہیں۔ اسی طرح کے ایک اور اسکرین شاٹ میں تحریک انصاف کے فواد چوہدری کے 58 فیصد فالوور جعلی دکھائی گئے ہیں۔ تاہم ”فیک فالوورز“ رکھنے والے رہنما صرف پی ٹی آئی سے ہی نہیں۔ مسلم لیگ نواز کے تینوں بڑے رہنماؤں نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز کے فیک فالوورز کی تعداد بھی 50 فیصد سے زائد ہے۔
اس ”آڈٹ“ پر سوشل میڈیا صارفین حیران ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ آج نیوز ڈیجٹل نے ان اسکرین شاٹ کے پیچھے موجود سافٹ ویئر کا تجزیہ کرکے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔
مائیکروبلاگنگ کی ویب سائٹ ٹوئٹر نے لوگوں کو صرف ان کے خیالات کے اظہار کے لیے پلیٹ فارم ہی مہیا نہیں کیا بلکہ کاروبار کا ایک پورا جال یا نیٹ ورک بچھایا ہے۔ ٹوئٹر کی آمدن کا ایک حصہ اس کی اے پی آئی (Twitter API) سے آتا ہے۔ سادہ لفظوں میں اس کے ذریعے سافٹ ویئر انجینئرز ٹوئٹر کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کرتے ہوئے اسے اپنے سافٹ ویئر میں استعمال کر سکتے ہیں یا اس کی بنیاد پر سافٹ ویئر بنا سکتے ہیں۔
اس اے پی آئی کو استعمال کرتے ہوئے سافٹ ویئر انجینرز ہر طرح کی ایپس بنا چکے ہیں۔ وہ ان ایپلیکشن کے استعمال کے بدلے صارفین سے رقم وصول کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ٹرینڈز میپ دنیا بھر میں جاری ٹوئٹر ٹرینڈز کو ایک نقشے پر دکھاتی ہے۔ اگر آپ جیب ڈھیلی کریں تو آپ کو یہ بھی بتا سکتی ہے کہ کون ٹوئٹر پرکیا کر رہا ہے۔
جعلی فالوورز کے آڈٹ یا Fake Followers Audit کے لیے ملتی جلتی کئی ایپس موجود ہیں۔ ان ایپلیکشن کے بنیادی ورژن کو آپ مفت استعمال کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک آن لائن ٹول followeraudit.com پر موجود ہے اسی نوعیت کی نصف درجن سے زائد ایپس مارکیٹ میں موجود ہیں۔ آپ کسی بھی ٹوئٹر ہینڈل کا آڈٹ چند سیکنڈ میں کرسکتے ہیں۔ لیکن یہاں ایک بڑا مسئلہ بھی ہے اور وہ ان سافٹ ویئرز کے استعمال کا طریقہ کار ہے۔
آن لائن موجود فیک فالوورز آڈٹ ایپلیکشنز کے مفت ورژن آپ کو دو سے پانچ ہزار فالوورز کا تجزیہ فراہم کرتے ہیں۔ یعنی اگر مفت ورژن کو استعمال کرتے ہوئے آپ عمران خان کے ٹوئٹر اکاؤٹ کا آڈٹ کریں گے تو ان کے ایک کروڑ 80 لاکھ فالورز میں سے صرف پانچ ہزار کا تجزیہ ہوگا۔ ظاہر ہے یہ کوئی جامع تجزیہ نہیں۔
سوشل میڈیا پر جو اسکرین شاٹ شیئر کیے گئے ہیں وہ sparktoro.com پر موجود ایپلیکشن کے ہیں۔ یہاں پر جب آپ کسی ٹوئٹر ہینڈل کا تجزیہ کریں گے تو جہاں فیک فالوورز کی تعداد سامنے آئے گی اس کے کچھ نیچے یہ بھی دکھائی دے گا کہ یہ سافٹ ویئر کیسے کام کرتا ہے۔
فیک فالوورز آڈٹ کیسے کام کرتا ہے (How The Fake Follower Audit Works) کے عنوان کے نیچے واضح طور پرلکھا ہے کہ یہ ٹول مطلوبہ ٹوئٹر ہینڈل کو فالو کرنے والے آخری ایک لاکھ اکاؤنٹس میں سے دو ہزار کے ڈیٹا کا تجزیہ کرتا ہے۔ سادہ لفظوں میں جن ایک لاکھ لوگوں نے حال ہی میں عمران خان کو فالو کرنا شروع کیا ان میں سے صرف دو ہزار کے ٹوئٹر اکاؤنٹس کا سافٹ ویئر نے تجزیہ کیا اور فیصلہ سنا دیا کہ عمران خان کے 60 فیصد فالووورز جعلی ہیں۔
اس طرح کا تجزیہ کتنا معتبر ہے اس کا اندازہ آپ خود کر سکتے ہیں۔ فیک فالوورز آڈٹ کے لیے بنائے گئے سافٹ ویئرز کے کارپوریٹ یا مکمل ورژن اس سے کہیں زیادہ تفصیلی ڈیٹا کا تجزیہ کر سکتے ہیں تاہم یہ ڈیٹا بھی پانچ لاکھ کے لگ بھگ فالوورز کا ہوتا ہے۔
پونے دو کروڑ ٹوئٹر اکاؤنٹس کا تجزیہ کرنا ایسے کسی ٹول کے لیے کاروباری لحاظ سے منافع بخش نہیں کیونکہ اس پر خطیر کمپیوٹنگ وسائل صرف ہوں گے۔
جہاں ایک طرف محدود ڈیٹا پر تجزیہ زیادہ قابل اعتبار نہیں ٹھہرتا وہیں ان سافٹ ویئرز کے کام کرنے کے دیگر طریقہ ہائے کار میں بھی مسائل ہیں۔ ان ٹولز نے فیک اکاؤنٹس کو شناخت کرنے کے لیے جو معیارات مقرر کر رکھے ہیں ان کے تحت اگر کوئی ٹوئٹر اکاؤنٹ ہولڈر زیادہ ٹوئٹس نہیں کرتا یا اس کے فالوورز بہت کم ہیں تو وہ بھی فیک شمار ہو گا۔
اگر کسی ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اس کی bio یعنی اکاؤنٹ ہولڈر کی معلومات نہ ہوں تو وہ بھی جعلی قرار پاتا ہے۔ اسی طرح پروفائل تصویر اورویب سائیٹ کے یو آر ایل کے بغیر چلنے والے ٹوئٹر اکاؤنٹ بھی مشکوک قرار پاتے ہیں۔ اپنی لوکیشن پر معلومات نہ دینا یا بہت سے دوسرے ناموں سے ملتے جلتے نام رکھنا بھی آپ کو فیک قرار دلوا سکتا ہے۔
اس اعتبار سے بہت حد تک ممکن ہے کہ آپ بھی فیک ٹوئٹر اکاؤنٹ ہولڈر ہوں اور آپ کا ٹوئٹر ہینڈل بھی عمران خان یا مریم نواز کے فیک فالوورز کی فہرست میں شامل ہو۔