گزشتہ کچھ سالوں میں عالمی وبا کورونا کی بدولت ہم نے دل سے اگر کچھ سیکھا ہے تو وہ ہے ہاتھ دھونا۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق، ہمیں بیماری کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لیے ہاتھوں کا بار بار دھونے کا مشورہ جو دیا گیا تھا۔ اور اسی وجہ سے اینٹی بیکٹیریل صابن کی مارکیٹ نے حالیہ برسوں میں زبردست ترقی کی، جس میں سال 2028 تک مزید اضافے کا امکان ہے۔
لیکن ہم ان اجزاء کے بارے میں کتنا جانتے ہیں جو اینٹی بیکٹیریل صابن بنانے میں استعمال ہوتے ہیں؟ ہم ان کے مضر اثرات کے بارے میں کتنا جانتے ہیں؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ ان مصنوعات کو بنانے میں جو کچھ استعمال ہوتا ہے وہ دراصل ہمارے اور ہمارے ماحول کے لیے کتنا نقصان دہ ہے؟
1964 میں پہلی بار پیٹنٹ کیا گیا ٹرائیکلوسن ایک مالیکیول ہے جو کولمبیا یونیورسٹی کے مطابق، حیاتیات کو فیٹی ایسڈ پیدا کرنے سے روک کر بیکٹیریا کو ختم کرنے کا کام انجام دیتا ہے۔
اگرچہ یہ سننے میں بے ضرر اور مفید لگ سکتا ہے، لیکن درحقیقت اس کا مسلسل استعمال فائدے سے زیادہ نقصان پہنچاتا ہے۔
یہ ہارمون کے افعال میں مسائل پیدا کرتا ہے اور بیکٹیریا کے خلاف مزاحمت پیدا کرتا ہے۔
سمتھسونین میگ کے مطابق، جب ہم ٹرائیکلوسن والا اینٹی بیکٹیریل صابن استعمال کرتے ہیں، تو بنیادی طور پر اسے گٹر کے پانی کے زریعے سمندر میں بھیج رہے ہوتے ہیں۔
ایسیوئیر ایکواٹک ٹاکسیکولوجی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دریاؤں میں پائے جانے والے ٹرائیکلوسن کے نشانات کا طحالب (الجی) پر نقصان دہ اثر پڑتا ہے، خاص طور پر یہ ان کے فوٹو سنتھیسز کے عمل کو منفی طور پر متاثر کرتا ہے۔ جب ہارمون کے افعل کی بات آتی ہے تو ٹرائیکلوسن کا جانوروں پر بھی وہی منفی اثر پڑتا ہے، ایک تحقیق کے مطابق بوٹل نوز ڈولفن میں ان مالیکیولز کی مقدار زیادہ پائی گئی ہے۔
2016 میں، یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے اینٹی بیکٹیریل صابن میں ٹرائیکلوسن کے استعمال پر حتمی سماعت کی اور فیصلہ دیا کہ اس کے استعمال کے منفی اثرات کسی بھی فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔
امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے مطابق جب ہمارے ہاتھوں کو صاف رکھنے کی بات آتی ہے تو سادہ صابن اور پانی بالکل ٹھیک کام کریں گے۔
یونیورسٹی آف سان فرانسسکو کی ماحولیاتی صحت کی پروفیسر باربرا سیٹلر نے اس کی حمایت کی اور نیو اٹلس کو بتایا کہ سادہ صابن اور پانی اتنا ہی مؤثر طریقے سے کام کرتے ہیں جتنا کہ اینٹی مائکروبیل صابن۔