تباہ حال عدالتی ںظام اور ریاست، اور سیاسی و سماجی کو بارہاں مشترکہ طور پر صحافیوں کے قتل کا ذمہ دار دیا جاتا ہے کیوںکہ اسی بنیاد پر قاتل آزاد گھومتے ہیں۔
استثنیٰ کا یہ سلسلہ گزرتے وقت کے ساتھ ملک کے تمام تر طبقوں میں پروان چڑھا ہے اور عوامی ٹریبیونل جیسے غیر روایتی طریقوں سے ان سے لڑا جاسکتا ہے، یہ آرا صحافیوں کے تحفظ کے لئے منعقدہ مجلس مذاکرے میں کیا گیا۔
سینٹر فار ایکسیلینس ان جرنلزم کی جانب سے آئی بی اے میں فری پریس انلمیٹیڈ، کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس اور رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے اشتراک سے عالمی سچ کیلئے ایک محفوظ دنیا پراجیکٹ کا انعقاد کیا گیا۔
پینل ممبر صحافی حامد میر جو ویڈیو لنک کے ذریعے مذاکرے کا حصہ تھے، ان کا کہنا تھا کہ دی ہیگ میں صحافیوں کے قتل کی نا مکمل تفتیش کے لئے قائم عوامی ٹریبیونل ایک مثال ہے۔ اسی ٹریبیونل میں پاکستانی صحافی زبیر احمد مجاہد جنہیں 2007 میں میر پور خاص میں قتل کیا گیا شامل ہیں۔
پینل میں سینئیر صحافی اویس توحید، محمل سرفراز، نذیر لغاری اور مایہ ماز وکیل فیصل صدیقی شامل تھے جب کہ امبر رحیم شمسی نے بطور ماڈیرئٹر اپنے فرائض انجام دئے اور شہید ارشد شریف کو خراج تحسین پیش کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کی خودساختہ سنسرشپ خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔فیصل صدیقی جنہوں نے حال ہی میں زبیر مجید کے قتل کی تازہ تحقیقات کے لئے اپیل دائر کی ہے، ان کا کہنا تھا کہ عدالتی کمیشن اور جوائنٹ تحقیقات ان تمام معاملات میں آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے زبیر مجاہد قتل کیس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پندرہ سالوں میں ایک بھی ملزم کی نشاندہی نہیں ہوسکی ہے۔
ریسرچ کوآرڈینیٹر برائے A Safer World for The Truth جاس بارٹمین کا کہنا تھا کے ایف یو پی کی تحقیقات میں پولیس کے جانب سے کئی کوتاہیوں کی نشاندہی کی گئی۔ پولیس نے زبیر کے قتل کے پیچھے ان کی صحافتی ذمہ داریوں کے محرکات کو سامنے نہیں رکھا جب کہ مذاکرے میں زبیر کے قتل پر مبنی ایک دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی۔
ٹی وی میزبان اور صحافی منیزے جہانگیر کا کہنا تھا کہ صحافیوں کے قتل پر سوال کرنا ضروری ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے ڈیجیٹل ادارے نے ان لوگوں کی نشاندہی کی جو صحافیوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کرواتے ہیں۔
مذاکرے میں صحافیوں اور طلباء سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں نے شرکت کی جن میں کراچی میں فرانسیسی سفیر الیکسی شاہ تخت اور صوبائی وزیر برائے انفارمیشن شرجیل انعام میمن بھی شامل تھے۔
معاون خصوصی برائے وزیر اعظم فہد حسین نے مذاکرے کو سراہا اور کہا کہ میڈیا مشکل دور سے گزر رہا ہے۔
انہوں نے امید کی کرن جگاتے ہوئے کہا کہ کمیشن برائے جرنلسٹس جس پر پچھلے کچھ عرصے سے کام جاری تھا، وہ کچھ ہی دنوں میں قائم ہوجائے گا، اس کمیشن کے ذریعے صحافیوں کو ایک قانونی راستہ ملے گا۔
ایونٹ میں سٹائرسٹ مرتضیٰ چوہدری اور مصطفی چوہدری نے بھی صحافی اسد طور کے ساتھ گفتگو کی۔
اس سے قبل، سی ای جے نے پریس کلب اور یونین کے صحافیوں کے ساتھ ایک مکالمے کا بھی انعقاد کیا جس میں مختلف شہروں سے صحافیوں نے حصہ لیا اور صحافیوں کو درپیش مسائل کا اظہار کیا۔ ساتھ ہی ان مسئلوں سے نمٹنے کے لئے تجاویز بھی پیش کی گئیں۔