وفاقی حکومت اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے درمیان سیاسی کشیدگی کے حل کیلئے خفیہ یا بیک ڈور مذاکرات میں ویسے تو ایوان صدر ستمبر کے اوائل سے ہی کردار ادا کررہا ہے مگر وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی صدر سے ملاقاتوں کے بعد پہلی بار یہ مذاکرات ریکارڈ پر آنا شروع ہوئے۔ اب عمران خان نے پارٹی رہنما شبلی فراز کو ایوان صدر مذاکرات کےلئے نمائندہ مقرر کرکے ان مذاکرات کو باضابطہ تسلیم کرلیا ہے۔
حقیقی آزادی مارچ کے اختتام اور ملک کے اہم عہدے پر تعیناتی سے پہلے ایوان صدر میں ملاقاتوں اور رابطوں کو خفیہ رکھا گیا، ایوان صدر میں آرمی چیف کی خفیہ ملاقات کو عسکری ادارے کے ترجمان اور ڈی جی آئی ایس آئی نے 27 اکتوبر کو مشترکہ پریس کانفرنس میں افشا کردیا تھا۔
مذاکرات کی خفیہ نشستوں کے ایجنڈے میں عمران خان اور تحریک انصاف کے رہنماوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے عسکری ادارے کی اہم شخصیات کے خلاف پراپیگنڈہ پر تحفظات، نئے آرمی چیف کی تعیناتی پر متنازعہ بیانات، اور اسلام آباد میں حقیقی آزادی مارچ کے پڑاو سے پیدا ہونے والی صورتحال جیسے ایشوز شامل تھے۔ ذرائع کے مطابق آرمی چیف کی تعیناتی اور حقیقی آزادی مارچ کے پرامن اختتام کے مطالبے پر تحریک انصاف کی قیادت نے ایوان صدر کی تجویزپر لچک پیدا کی اور اس پر عملدرآمد کرکے مذاکرات کو آگے بڑھانے کا موقع فراہم کیا۔
9 دسمبر تک حکومتی نمائندے اسحاق ڈار اور صدر مملکت کے درمیان 5 ملاقاتیں ہوچکی تھیں، ان ملاقاتوں میں پوسٹ لانگ مارچ اور پوسٹ نئی اسٹیبلشمنٹ صورتحال کے تناظر میں حکومت اور تحریک انصاف کی طرف سے اٹھائے گئے تحفظات اور مطالبات کو مذاکرات کی ٹیبل پرلایا گیا۔
صدر مملکت نے ان مذاکرات کو باضابطہ بنانے کےلئے حکومت اور تحریک انصاف کو مذاکراتی نمائندے مقرر کرنے کی تجویز دی۔ ابتدائی طور پر حکومت کی طرف سے اسحاق ڈار اور چیئرمین تحریک انصاف کی طرف سے شبلی فراز کو فوکل پرسن مقرر کردیا گیا ہے، اور اس حوالے سے دونوں رہنماوں نے ایوان صدر کے ذریعے ابتدائی رابطے بھی شروع کردیئے ہیں۔
حکومت اور تحریک انصاف کے ذرائع کے مطابق حالیہ مذاکرات کےلئے جو نکات ایجنڈے میں شامل کئے گئے ہیں، ان میں سے کچھ یہ ہیں۔
1۔ کیا حکومت مقررہ وقت سے چند ماہ پہلے عام انتخابات کرانے کو تیار ہے؟
2۔ اگر تحریک انصاف 2 صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا فیصلہ واپس لے لے تو حکومت مکمل عام انتخابات کی کونسی تاریخ دے سکتی ہے؟
3۔ اگر عام انتخابات سے پہلے نگران حکومت بنتی ہے تو مشاورت میں تحریک انصاف کی شمولیت کی کیا ضمانت ہے؟
4۔ نواز شریف، عمران خان اور تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں کے خلاف کیسزختم کرنے کے حوالے سے دونوں حریف جماعتیں کیا اتفاق رائے پیدا کرسکتی ہیں؟
5: کیا حکومت عمران خان کو آئندہ عام انتخابات سے پہلے لیول پلینگ فیلڈ کی ضمانت فراہم کرسکتی ہے؟
ذرائع کے مطابق یہ امور طے پا جانے کی صورت میں عمران خان مقررہ وقت پرعام انتخابات پراتفاق کرنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق صدر عارف علوی نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے الگ الگ انتخابات کےلئے کم ازکم چھ ماہ درکار ہیں جبکہ مجموعی طور پر حکومت کی مدت ختم ہونے میں دس ماہ باقی ہیں، اور پاکستانی کی معیشت دس ماہ میں دو بڑے انتخابات کے بجٹ کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔
ذرائع کے مطابق ایوان صدراور شہباز شریف حکومت کو دونوں طرف کے کچھ ہارڈ لائنرز کی وجہ سے مذاکرات کی پیش رفت میں مشکلات کا سامنا ہے۔ پی ڈی ایم اتحاد میں مولانا فضل الرحمٰن اور مریم نواز تحریک انصاف سربراہ عمران خان کے خلاف کیسز میں لچک پیدا کرنے کے سخت خلاف ہیں، جبکہ تحریک انصاف کے کچھ رہنما نواز شریف کی واپسی اور عدالتوں سے ریلیف کے خلاف سخت ردعمل جاری رکھنے اور انہیں چیلنج کرنے کے لئے بضد ہیں۔
ذرائع کے مطابق ایوان صدر کے مذاکرات عمران خان کی نااہلی اور گرفتارنہ کرنے کی یقین دہانی کی صورت میں نتیجہ خیز ہونے کا امکان ہے ورنہ دوسری صورت میں عمران خان صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا آپشن استعال کرکے حکومت کو امتحان میں ڈالنے کا مکمل ارادہ رکھتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق عمران خان نے اب صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے لئے 20 دسمبر کی نئی ڈیڈ لائن اس لئے دی ہے تاکہ شبلی فراز کے ذریعے انہیں مذکرات کی سنجیدہ پیش رفت کا اندازہ ہوجائے۔ ورنہ دوسری صورت میں انہیں صوبائی اسمبلیوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوگا۔