گیلپ پول کے ڈیٹا پر پاکستان کے حوالے سے آج نیوز کا تجزیہ
گیلپ ورلڈ کی جانب سے پچھلے کچھ برسوں میں کیے گئے رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پوری دنیا دکھ اور نا خوشی (unhappiness) سے بھر گئی ہے۔ زیادہ سے زیادہ لوگ پریشان رہنے لگے ہیں۔ لیکن اسی گیلپ کے سرویز میں کہا گیا ہے کہ دوسرے ممالک کے عوام کی نسبت پاکستانی زیادہ مطئمن، خوش اور خود کو معتبر سمجھتے ہیں۔ البتہ سیکھنے سے انہیں کوئی خاص دلچسپی نہیں۔
گیلپ ورلڈ نے Global Emotion یا عالمی جذبات کے نام سے اپنی رپورٹ ستمبر میں جاری کی تھی۔ لیکن اس پر بحث اب شروع ہوئی ہے۔ بی بی سی ورلڈ نے گیلپ کے گلوبل ایموشن سروے سے ڈیٹا لے کر ایک تجزیہ پیش کیا جس میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر کی خواتین میں غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔
گیلپ ورلڈ کی جانب سے ہر سال 150 ممالک میں ایک لاکھ 20 ہزار لوگوں سے ان کے محسوسات یعنی غصہ، تکلیف، ذہنی تناؤ، آرام، خوشی کے حوالے سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ بی بی سی نے پچھلے آٹھ برسوں کا ڈیٹا لے کرنتیجہ اخذ کیا کہ خواتین میں غصے جیسے منفی جذبات میں اضافہ ہورہا ہے۔
آج ڈیجیٹل نے جب اسی ڈیٹا کا پاکستان کے حوالے سے تجزیہ کیا تو معلوم ہوا ہے کہ بلاشبہ دنیا میں دکھ اور پریشانی بڑھ رہی ہے لیکن مثبت جذبات یعنی خوشی اور خود کو معتبر سمجھنے میں پاکستانی خطے کے دوسرے ممالک سے آگے ہیں۔
گیلپ کی جانب سے مجموعی طور پر دس محسوسات کے بارے میں سوالات کیے گئے تھے ۔ جن میں غصہ (ANGER)، اداسی (SADNESS)، پریشانی (WORRY)، ذہنی تناؤ(STRESS)، تکلیف (PAIN)، خوشی (ENJOYMENT)، آرام (WELL-RESTED)، سیکھنے کا احساس (LEARNED)، مسکراہٹ کا احساس (SMILED)، قابل احترام محسوس کیاجانا (RESPECT) شامل تھے۔
ان میں سے شروع کے پانچ سوالات منفی احساسات جب کہ آخر کے پانچ سوالات مثبت محسوسات کے حوالے سے ہیں۔
لوگوں سے کہا گیا کہ وہ گذرے کل میں صبح سے لے کر شام تک کے بارے میں سوچیں اور اس دوران وہ جہاں پر تھے ان کے ان دس معاملات کے حوالے سے کیا جذبات تھے۔ یعنی انہوں نے پریشانی محسوس کی یا نہیں، مسکرائے یا نہیں، انہیں اپنے قابل احترام ہونے کا احساس ہوا یا اس کے برعکس صورت حال پیش آئی۔
اس حوالے سے آخری سروے 2021 میں کیا گیا تھا جس کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ منفی محسوسات کے حوالے سے پاکستانی خطے کے دوسرے ممالک سے پیچھے اور مثبت احساسات میں دوسروں سے آگے ہیں۔ مثال کے طور پر افغانستان کے 41 فیصد شہریوں اور بھارت و ایران کے 34 فیصد لوگوں نے کہاکہ انہوں نے غصہ محسوس کیا جب کہ اس کے مقابلے میں 31 فیصد پاکستانیوں میں غصہ پایا گیا۔
اداسی کے معاملے میں بھی بھارت (44 فیصد)، ایران (40 فیصد) اور افغانستان (44 فیصد) پاکستان سے بہت آگے رہے۔ پاکستان میں صرف (30 فیصد ) لوگ اداس پائے گئے۔
پاکستانیوں میں سے 21 فیصد نے ذہنی تناؤ کی شکایت کی۔ بھارت میں یہ تناسب 32 فیصد، ایران میں 43 فیصد اور افغانستان میں 74 فیصد پایا گیا۔ یہ صورتحال پریشانی کے حوالے سے تھی۔
منفی محسوسات کے حوالے سے افغانستان خطے میں سب سے آگے رہا۔
دوسری جانب خوشی کے معاملے میں 61 فیصد پاکستانیوں نے 60 فیصد بھارتیوں کو معمولی مارجن سے شکست دی۔ آرام کے احساس کے حوالے سے بھارتی (62 فیصد) پاکستان (57فیصد) سے کچھ آگے تھے۔
جب بات اس سوال پر آئی کہ کیا آپ کو ایسا محسوس ہوا کہ آپ نے کچھ سیکھا ہے تو صرف 24 فیصد پاکستانیوں نے کہا ’ہاں۔‘ اس کے مقابلے میں بھارت اور ایران میں 37 فیصد لوگوں کو محسوس ہوا کہ انہوں نے گذرے دن میں کچھ علم حاصل کیا ہے۔
مسکرانے کے معاملے میں 66 فیصد بھارتیوں اور 59 فیصد ایرانیوں نے کہا کہ وہ گزرے دن میں مسکرائے تھے۔ اس کے مقابلے میں 70 فیصد پاکستانیوں نے بتایا کہ وہ پچھلے دن مسکراہٹیں نچھاور کرتے رہے ہیں۔
اپنے بارے میں قابل عزت یا معتبر ہونے کے احساس میں پاکستانیوں نے بھارت کو بڑے مارجن سے پیچھا چھوڑ دیا۔ بھارت میں 75 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے قابل عزت Respected ہونے کا احساس ہوا۔ پاکستان اور ایران میں یہ شرح 92 فیصد رہی۔
تاہم مجموعی طور پر پچھلے دس برسوں میں دنیا میں ناخوشی یا unhappiness کے احساس میں اضافہ ہوا ہے۔
گیلپ ورلڈ کے مطابق 2011 میں دنیا میں ناخوشی کا مجموعی انڈیکس 24 پر تھا۔ اس کے اگلے دو برسوں میں یہ بالترتیب 26 اور 27 پر پہنچا۔ 2014 میں کم ہوا لیکن اس کے بعد سے خوش نہ ہونے کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔ کووڈ کی وبا کے دوران اس میں اضافہ ہوا اور ناخوشی کا انڈیکس 33 درجے پر ہے۔