پروین رحمان قتل کے مقدمے میں بری ہونے والے 3 ملزمان نے حکومت سندھ کی جانب سے 3ماہ کی نظربندی کو سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا ۔
سندھ ہائیکورٹ نے صوبائی حکومت کو 12 دسمبر کے لئے نوٹس جاری کردیا ۔
عدالت نے ہوم سیکریٹری اور آئی جی سندھ کومتعلقہ مواد اوررپورٹ سمیت پیش ہونے کا حکم دیا ہے ۔
سندھ ہائیکورٹ نے درخواست کی نقول پراسیکیوٹر جنرل کو آج ہی فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ سندھ ہائیکورٹ نےملزمان کوبےگناہ قراردیتے ہوئے بری کردیا تھا، ملزمان کی نظر بندی بلا جواز اور غیرقانونی ہے۔
یاد رہے کہ یکم دسمبر کو سندھ حکومت کی جانب سے پرویز رحمان کے قتل میں نامزد ملزمان کو رہا نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
سندھ حکومت نے مقتولہ کی بہن اور اہل خانہ کی جان کے خطرے کے پیش نظر ملزمان کو ایم پی او کے تحت مزید 3 ماہ نظر بند کرنے کا فیصلہ کیا۔
سندھ حکومت کا کہنا تھا کہ پروین رحمان کی بہن اور فیملی ممبران کو ملزمان سے جان سے خطرہ ہے جس کے باعث ملزمان کو ایم پی او قوانین 1960 کے تحت ملزمان کو مزید 90 دن قید میں رکھا جائے گا۔
واضح رہے کہ سندھ ہائیکورٹ نے پرویز رحمان قتل کیس میں نامزد مرکزی ملزمان امجد حسین، ایازسواتی ، رحیم سواتی، اور احمد حسین کو شک کے فائدے کی بنیاد پر بے گناہ قرار دے کر بری کرنے کا حکم دیا تھا۔
اورنگی پائلٹ پروجیکٹ نامی این جی او کا قیام 1980 میں عمل میں آیا، این جی اوکا مقصد اورنگی ٹاؤن میں غیر قانونی تعمیرات پرنظر رکھنا تھا۔
ڈرائیورکے مطابق 13 مارچ 2013 کو وہ پروین رحمان کو دفتر سے گھر لے جارہا تھاکہ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی پروین رحمان کو قتل کردیا گیا۔
پروین رحمان کے ڈرائیور نے فوری طور پر انہیں عباسی شہید اسپتال منتقل کیا تھا تاہم اس حملے میں وہ جانبر نہ ہوسکیں تھیں۔
مین منگھوپیر روڈ پختون مارکیٹ کے قریب اسپیڈ بریکر پرجب کارکی رفتارآہستہ کی،اچانک موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم ملزمان نے فائرنگ کردی،فائرنگ کے نتیجے میں پروین رحمان کی موت واقع ہوئی۔
مدعی کی شکایت پر تھانہ پیر آباد میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ایک روزبعد پولیس تحقیقات کے سلسلے میں کالعدم تنظیم کے مقامی رہنما قاری بلال کو گرفتار کرنے پہنچی تو وہ جعلی مقابلے میں مارا گیا تھا،جس کے بعد کیس کی فائل بند ہوگئی تھی۔
سپریم کورٹ نے اپریل 2015ء میں اس کیس کا از خود نوٹس لیااور تحقیقات دوبارہ کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔
سپریم کورٹ کے حکم پر ایک جے آئی ٹی تشکیل دی گئی۔ٹیم نے رحیم سواتی کو خیبرپختون خوا کے علاقے سے گرفتار کیا،رحیم سواتی اس نے تفتیش کے دوران پروین رحمان کے قتل کا اعتراف بھی کیا۔
پروین رحمان کے قتل کی تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ اجرتی قاتلوں نے 40 لاکھ روپے کے عوض قتل کیا۔
گرفتار ملزم امجد حسین نے جے آئی ٹی کوبیان میں بتایاکہ ایک سیاسی جماعت کاعہدیدار پروین رحمان سے زمین مانگ رہے تھا، انکار پر کالعدم تنظیم کو پیسے دے کر انہیں قتل کروا دیا گیا۔
ملزم امجد حسین عرف امجد آفریدی نے بیان میں کہا تھا کہ اس کیس میں پہلے سے گرفتار ملزم رحیم سواتی اور عوامی نیشنل پارٹی کے علاقائی عہدیدار ایاز سواتی پروین رحمان سے علاقے میں جِم کھولنے کے لیے زمین مانگ رہے تھے۔
پروین رحمان کے انکار پر جنوری 2013 میں رحیم سواتی کے گھر پروین رحمان کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا، امجد آفریدی جس میں ملزم امجد حسین، ایاز سواتی، رحیم سواتی اور احمد عرف پپو شامل تھے۔
ملزم کے مطابق قتل کے لئے رحیم سواتی نے کالعدم ٹی ٹی پی کے موسٰی اورمحفوظ اللہ عرف بھالو نامی دو علاقائی عہدیداروں سے رابطہ کیا۔
40لاکھ روپے کے عوض پروین رحمان کو قتل کرنے کے لئے تیار ہوگئے، امجد حسین اور دیگر ملزمان نے 2 ماہ تک پروین رحمان کی ریکی بھی کی، جس کی تفصیلات کالعدم تنظیم تک پہنچائی جاتی رہی۔موسیٰ اور بھالو نے 23 مارچ 2013 کو پروین رحمان کو قتل کردیا۔
ملزم امجد حسین نے دوران تفتیش جے آئی ٹی کو بتایا کہ رحیم سواتی نے 40 لاکھ روپے نہ دینے پر کالعدم تنظیم نے اس کےگھر دستی بم حملہ بھی کیا تھا۔
پولیس نے 18 مارچ 2015ء کو مانسہرہ سے قتل میں ملوث مرکزی ملزم احمد خان عرف پپو کشمیری کو گرفتار کیا جبکہ منگھوپیر سے رحیم سواتی کی گرفتاری بھی عمل میں آئی تھی۔
یہ کیس 3 بار چلایا گیا تھا اور 5 جے آئی ٹیز تشکیل دی گئیں تھیں،پانچویں جے آئی ٹی سپریم کورٹ کے حکم پربنائی گئی تھی۔
2021 میں اے ٹی نے جرم ثابت پر ملزمان کو 2,2 بار عمر قید اور جرمانے کی سزا سنائی ، جے آئی ٹی نے پروین رحمان کے انٹرویو کی فرانزک بھی کرائی تھی، پروین رحمان نے اپنی زندگی میں قتل کے خدشات کا اظہار کیا تھا۔