انڈونیشیا کے نئے فوجداری قانون سے ناراض ایک مشتبہ عسکریت پسند نے بدھ کے روز ایک پولیس سٹیشن خودکش دھماکے میں اڑا دیا، جس کے نتیجے میں ایک شخص جاں بحق اور کم از کم 10 زخمی ہوئے ہیں۔
انڈونیشیا کے پولیس چیف لسٹیو سگیت پرابوو نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ خودکش حملہ آور کا تعلق داعش سے متاثرہ گروپ جماعت انشارالدولہ (جے اے ڈی) سے تھا اور وہ اس سے قبل دہشت گردی کے الزام میں جیل بھی جاچکا ہے۔
پولیس چیف نے بتایا کہ حملہ آور کی شناخت آگس سوجاتنو کے نام سے ہوئی ہے، جسے 2021 کے آخر میں رہا کیا گیا تھا۔
تفتیش کاروں کو جائے وقوعہ پر ملک کے متنازع نئے فوجداری قانون کے خلاف احتجاج پر مبنی درجنوں دستاویزات ملے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ، ”ہمیں ایسے درجنوں کاغذات ملے جو نئے منظور شدہ فوجداری قانون کے خلاف احتجاج پر مبنی تھے۔“
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ نئے فوجداری قانون میں شریعت پر مبنی دفعات موجود ہیں اور منگل کو بھی پارلیمنٹ نے اس کی توثیق کی ہے، لیکن سخت گیر اسلامی نظریات کے حامل ان دیگر مضامین سے ناراض نظر آتے ہیں جنہیں انتہا پسند نظریات کے پرچار کو روکنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ویسٹ جاوا پولیس کے سربراہ سنتانا نے اس سے قبل میٹرو ٹی وی کو بتایا تھا کہ حکام کو جائے وقوعہ سے ایک نیلے رنگ کی موٹر سائیکل ملی ہے، جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ اسے حملہ آور نے استعمال کیا تھا۔
سنتانا کا کہنا ہے کہ موٹر سائیکل کے ساتھ ایک نوٹ منسلک تھا جس میں درج پیغام میں نئے فوجداری قانون کو ”کافر پروڈکٹ“ قرار دیا گیا تھا۔
جکارتہ میں ”کونکورڈ کنسلٹنٹ“ کے ایک سینئر سیکورٹی تجزیہ کارٹوڈ ایلیٹ نے روئٹرز کو بتایا کہ امکان ہے حملے کی منصوبہ بندی میں کچھ عرصہ لگا ہو، اور یہ ملک کے نئے قوانین کا نظریاتی رد تھا۔
انہوں نے کہا کہ ”اگرچہ تمام تر توجہ فوجداری قانون میں شریعت پر مبنی ان دفعات میں سے کچھ پر ہے اور یہ انڈونیشیا میں قدامت پسند اسلام کے پھیلاؤ کا اشارہ ہے، لیکن فوجداری قانون میں ایسی تبدیلیاں بھی ہیں جن کی سخت گیر حمایت نہیں کریں گے۔“
بدھ کو ہونے والے حملے کی حاصل ہونے والی ویڈیو فوٹیج میں تباہ شدہ پولیس سٹیشن سے دھواں اٹھتا ہوا دکھایا گیا ہے، جبکہ زمین پر ملبہ پڑا ہے۔
ہینس نامی 21 سالہ عینی شاہد نے روئٹرز کو بتایا کہ ”اچانک میں نے ایک دھماکے کی آواز سنی… میں نے دیکھا کہ چند پولیس افسران اسٹیشن سے باہر آئے اور وہ ٹھیک سے چل نہیں پا رہے تھے۔“
عسکریت پسندوں نے حالیہ برسوں میں دنیا کے سب سے بڑے مسلم اکثریتی ملک میں کئی حملے کیے ہیں جن میں گرجا گھروں، پولیس اسٹیشنوں اور غیر ملکی اکثریت والے مقامات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
جے اے ڈی ارکان 2018 میں سورابایا شہر میں ہونے والے خودکش چرچ بم دھماکوں کے سلسلے کے ذمہ دار تھے۔ یہ حملے تین خاندانوں کے ذریعے کیے گئے، جنہوں نے اپنے چھوٹے بچوں کو بھی خودکش جیکٹیں پہنائی تھیں، ان حملوں میں کم از کم 30 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
2021 میں، جے اے ڈی کے ایک نوبیاہتا جوڑے نے مکاسر کے ایک کیتھیڈرل میں خودکش حملہ کیا، جس میں صرف وہ خود ہلاک ہوئے۔
عسکریت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کی کوشش میں، انڈونیشیا نے جے اے ڈی کے خودکش حملوں کے بعد ایک نیا سخت انسداد دہشت گردی قانون بنایا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ گروپ، جو اب بڑے پیمانے پر تقسیم ہو چکا ہے، حالیہ برسوں میں انسداد دہشت گردی ایجنسی کی جانب سے گرفتاریوں کی ایک لہر سے نمایاں طور پر کمزور ہوا ہے۔