جرمنی میں ہونے والے ملک گیر آپریشن میں 25 افراد کو حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں حراست میں لے لیا گیا ہے۔
جرمن اٹارنی کے دفتر نے مشتبہ افراد کو ایک ایسی دہشتگرد تنظیم بنانے کا قصوروار ٹھہرایا ہے جس کا مقصد ملکی آئین کو کالعدم کرنا اور 1871 جرمن شہنشاہوں کی مثال پر ایک حکومت قائم کرنا ہے۔
دعوے کے مطابق زیرِ حراست افراد جرمنی کی قومی اسمبلی پر حملے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔
حراست میں لئے گئے افراد میں سابق فوجی بھی شامل ہیں۔
جرمنی وہ ملک ہے جس پر ترکیہ حکومت نے الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ جرمنی کی طرف سے 15 جولائی کی ناکام بغاوت میں ملوث بعض سابق فوجیوں کی سیاسی پناہ کی درخواست منظور کرنے پر گہرا افسوس ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ترجمان ابراہیم کالین کی جانب سے جرمنی پر گولن کی تنظیم کی حمایت کے اس الزام کے بعد برلن اور انقرہ حکومتوں کے مابین سفارتی تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہونے کا خدشہ بھی بڑھ گیا تھا۔
استغاثہ کا کہنا ہے کہ یہ گروپ QAnon اور Reichsbuerger کی ڈیپ اسٹیٹ سازشی نظریات سے متاثر تھا، جو جدید جرمنی کی قانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے اور اس بات پر مصر ہیں کہ دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کی شکست کے باوجود اب بھی بہت بڑی ”جرمن سلطنت“ موجود ہے۔
استغاثہ کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ مذکورہ سازش میں جرمنی کے شاہی خاندان کے ایک سابق رکن کا ہاتھ ہے، جس کی شناخت جرمنی کے رازداری کے قانون کے تحت ہینرچ XIII کے طور پر کی گئی ہے، ہینرک کو مستقبل کی ریاست میں رہنما کے طور پر پیش کیا گیا تھا جبکہ ایک اور مشتبہ شخص روئڈگر وی پی ملٹری ونگ کا سربراہ تھا۔
بیان میں کہا گیا کہ ہینریچ کا تعلق ریوس کے شاہی گھرانے سے ہے اور وہ ”شہزادہ“ کا لقب استعمال کرتا ہے، اس شاہی گھرانے نے مشرقی جرمنی کے کچھ حصوں پر حکمرانی کی تھی۔
ہینریچ نے کچھ روسی نمائندوں سے بھی رابطہ کیا تھا، جنہیں یہ گروپ اپنی نئی حکومت کے قیام کے لیے مرکزی رابطہ گردانتا ہے۔
دفتر استغاثہ کا کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ روسی نمائندوں نے درخواست پر مثبت رد عمل ظاہر کیا ہو۔
جرمنی میں قائم روسی سفارت خانے کے حوالے سے آر آئی اے نیوز ایجنسی نے کہا ہے کہ جرمنی میں روسی سفارتی اور قونصلر ادارے دہشت گرد اور دیگر غیر قانونی گروپوں کے نمائندوں کے ساتھ رابطے نہیں رکھتے۔
جرمن ملٹری انٹیلی جنس سروس کے ترجمان نے رائٹرز کو بتایا کہ جن لوگوں سے تفتیش کی جا رہی ہے ان میں ایک فعال سپاہی اور کئی ریزروسٹ بھی شامل ہیں۔ فعال سپاہی بنڈیسوہر کی KSK ایلیٹ فورس کا رکن ہے، جسے حالیہ برسوں میں دائیں بازو کے متعدد واقعات کی وجہ سے تبدیل کیا گیا ہے۔
پراسیکیوٹر کے دفتر نے کہا کہ تفتیش کاروں کو شبہ ہے کہ گروپ کے انفرادی ارکان نے برلن میں پارلیمنٹ کے ایوان زیریں بنڈسٹاگ پر ایک چھوٹے مسلح گروپ کے ساتھ حملہ کرنے کا ٹھوس منصوبہ بنایا تھا۔
اگست 2020 میں، مظاہرین نے جرمنی کی ریخسٹگ پارلیمنٹ کی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا، جن میں سے کچھ نے دائیں بازو کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔
جرمنی کی انٹیلی جنس ایجنسی تقریباً 21,000 افراد کو ریخسبرگر (ریخ کے شہری) تحریک سے منسوب کرتی ہے، جن میں سے تقریباً 5 فیصد کو انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
ایجنسی کی 2021 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، تقریباً 2,100 Reichsbuerger اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لیے تشدد کا استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں۔
مقامی میڈیا کے مطابق، ہاؤس آف ریوس نے ہینریچ سے علیحدگی اختیار کرلی تھی اور اسے ایک کنفیوزڈ آدمی قرار دیا تھا جو سازشی نظریات پر عمل پیرا تھا۔
2019 میں ایک تقریر میں جدید سیاسی ڈھانچے کی مذمت کرتے ہوئے، ہینریچ ریوس نے کہا تھا کہ ان کے خاندانی شجرے کا پتہ 900 عیسوی تک لگایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ Reuss کی سابقہ سلطنت میں، لوگ ”خوش زندگی“ گزارتے تھے کیونکہ انتظامی ڈھانچے ”سیدھے اور شفاف“ تھے۔
انہوں نے کہا ”اگر چیزیں ٹھیک نہیں ہوتیں تو آپ صرف شہزادے کے پاس جاتے ہیں، آج آپ کو کس کی طرف رجوع کرنا ہے؟“
انہوں نے کہا کہ جرمنی دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ایک جاگیردار ریاست رہا ہے، اس پر مغربی اتحادیوں کی حکومت تھی۔
جرمنی کی بادشاہت کو ایک صدی قبل ختم کر دیا گیا تھا۔ جب 14 اگست 1919 کو ویمار کا آئین نافذ ہوا تو جرمن اشرافیہ کی قانونی مراعات اور القابات کو ختم کر دیا گیا۔
لہذا، سرکاری طور پر، جرمنی میں کوئی شہزادے اور شہزادیاں نہیں ہیں۔
استغاثہ کا کہنا ہے کہ 11 جرمن وفاقی ریاستوں میں 3,000 سے زیادہ پولیس اہلکاروں اور سیکیورٹی فورسز کے ذریعے چھاپے مارے گئے ہیں۔
دفتر نے بتایا کہ مشتبہ افراد کو جرمن ریاستوں باڈن وورٹمبرگ، باویریا، برلن، ہیسے، لوئر سیکسنی، سیکسنی، تھورنگیا کے ساتھ ساتھ آسٹریا اور اٹلی میں بھی گرفتار کیا گیا۔
دفتر کے مطابق، مشتبہ افراد پر نومبر 2021 کے آخر سے اب تازہ ترین، اپنے نظریے کی بنیاد پر کارروائیاں کرنے کی تیاری کرنے کا الزام ہے۔ ان کارروائیوں میں سامان کی خریداری، نئے اراکین کی بھرتی اور شوٹنگ کے اسباق کا انعقاد شامل ہے۔
دفتر نے کہا کہ بھرتی کی کوششوں کا مرکز بنیادی طور پر فوجی اور پولیس افسران تھے۔
دفتر نے کہا کہ گروپ کو معلوم تھا کہ اس کے منصوبے میں اموات شامل ہوں گی، انہوں نے مزید کہا کہ اس کے اراکین نے اس منظر نامے کو نظام کی تبدیلی کی طرف ایک ”ضروری درمیانی قدم“ سمجھا۔
زیر حراست مشتبہ افراد بدھ اور جمعرات کو فیڈرل کورٹ آف جسٹس کے جج کے سامنے پیش ہوں گے جو وارنٹ گرفتاری جاری کریں گے اور ان کی پری ٹرائل حراست کا فیصلہ کریں گے۔