لاہور بھر کے مختلف شہروں میں ہونے والی وارداتوں اور ان کی تحقیقات میں ہونے والی پیشرفت کا احوال یہاں مختصراً پیش کیا گیا ہے۔
شہری عدنان کو چند روز قبل کوٹ لکھپت کے علاقے میں فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ مقتول کی بہن آسیہ، عباس سمیت شوٹرز مرتضی اور نعیم کو CCTV کیمروں اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے گرفتار کیا گیا۔
ملزم آسیہ انگریزی زبان میں ماسٹرز کی صنعت یافتہ ہے جو اٹلی میں مقیم وقاص سے شادی کرنا چاہتی تھی جب کہ مقتول عدنان اس بات پر راضی نہ تھا۔
ملزم وقاص نے آسیہ سے پلاننگ کر کے اپنے بھائی عباس کے ذریعے شوٹرز کو 2 لاکھ 70 ہزار کی رقم دے کر عدنان کو قتل کروایا، پولیس نے ملزمان کو گرفتار کر کے ان سے آلہ قتل پسٹل بھی برآمد کر لیا گیا ہے۔
ملزم علی احمد نے سابقہ مقدمہ بازی کی رنجش پر مقتول فیصل شہزاد کو اس کے گھر کے قریب فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔
مقتول عثمان کی ملزمان دلاور، جابر علی اور اکبر علی کی بہن سعدیہ سے پسند کی شادی ہوئی تھی، مقتول عثمان نے ملزم دلاور کی بیوی سے بھی ناجائز تعلقات استوار کر لیے تھے جس کا انہیں رنج تھا، ملزمان نے عثمان کو چھریوں کے وار کرکے بے دردی سے قتل کر دیا تھا، ملزمان نے مقتول کی نعش آشیانہ سکیم کے عقب کھلی جگہ گہری کھائی میں پھینک دی تھی، مقتول کی موٹر سائیکل اور آلہ قتل 2 چھریاں برآمد کر لی گئیں ہیں۔
مقتول عدنان نے ملزم کی 17 سالہ بیٹی فرح بی بی کے ساتھ شادی کر لی تھی جس کا ملزم کو رنج تھا، ملزم محمد شریف نے نے بیٹے اور داماد کو گھر بلایا اور فائرنگ کرکے قتل کر دیا، آلہ قتل پسٹل برآمد کر لیا گیا۔
مقتولین اسد اور حمزہ تقریباً ایک سال قبل اپنے والد عبدالقیوم (پولیس اہلکار) کے قتل کے جرم میں جیل گئے، ضمانت پر رہا ہو کر آئے تو حقیقی چچا جاوید کے بیٹے حذیفہ اور صغیر نے قتل کر دیا، دونوں ملزمان کو گرفتار کر کے آلہ قتل برآمد کر لیا گیا۔
ملزم شہباز عرف چھنو نے اپنے ساتھی کے ہمراہ اپنے بڑے بھائی حیدر علی کو منہ میں فائر مار کر قتل کر دیا تھا، ملزم شہباز کو گرفتار کر کے آلہ قتل پسٹل برآمد کر لیا گیا۔
مقتول ناصر حسین نے تھانہ کاہنہ میں اپنی بیٹی کے اغواء کا مقدمہ درج کروا رکھا تھا، ملزم دانش مقدمہ خارج کروانے اور صلح کے لیے ناصر حسین کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہا تھا، انکار پر ملزم نے گھر میں گھس کر ناصر حسین کے پیٹ میں فائرمارکر زخمی کر دیا، جو بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا تھا۔
ملزم خرم شہزاد کی 3 سال قبل 22 سالہ کرن شہزادی سے منگنی ہوئی تھی، مقتولہ کرن شہزادی نے شادی سے انکار کر دیا جس کا ملزم خرم شہزاد کو رنج تھا، ملزم نے اپنے بھائیوں کے ہمراہ گھر میں گھس کرپیٹرول چھڑک کر مقتولہ کو آگ لگا دی تھی۔
ملزم معظم علی کی شادی گونگی لڑکی ماریہ سے ہوئی، جن کا آپس میں لڑائی جھگڑا رہتا تھا، جھگڑوں کی وجہ سے ماریہ اپنے والد فریاد کے گھر رہ رہی تھی، مقتول صلح کے لیے سسرال آیا، تلخ کلامی پر ملزم معظم علی اور ذوالفقار نے اپنے سسر فریاد کا سر دیوار کے ساتھ مار کر قتل کر دیا۔
مقتول شوکت علی کا اپنی بیوی ناہید اختر سے جھگڑا ہوا، ماں سے جھگڑا کرنے پر حسین عرف صابی اور حسنین نے فائرنگ کرکے اپنے والد شوکت علی کو قتل کر دیا، آلہ قتل پسٹل برآمد کرلیا گیا۔
چند روز قبل مغوی زبیر علی اور اس کے چچا شوکت علی کو ایک کروڑ روپے تاوان کے لیے اغواء کر لیا گیا تھا، پولیس ٹیم نے شب و روز کی محنت کے بعد مغویان کو گھوٹگی سندھ سے باحفاظت بازیاب کروا لیا۔
ملزم قربان علی نے معمولی جھگڑے پر داماد علی رضا کی مدد سے اپنی بیوی کی ناک کاٹ دی تھی۔
گرفتار ملزم آصف جو کہ پہلے سے شادی شدہ ہے، متاثرہ لڑکی تہمینہ سے بھی شادی کرنا چاہتا تھا، انکار پر گھر میں گھس کر ملزم آصف نے تہمینہ پر تیزاب پھینک دیا، تیزاب سے لڑکی کا چہرہ، بازو اور ٹانگ بری طرح جل گئے۔
ملزمان علی رضا اور اس کی بیوی حلیمہ بی بی نے معمولی جھگڑے پر 22 سالہ نورین کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا، ملزم علی رضا کی بیوی حلیمہ نے نورین کے گھر کے سامنے کوڑا پھینکا تھا، جو جھگڑے کی وجہ بنا، میاں بیوی مقتولہ کے قتل کے بعد کچے کے علاقے میں چھپ گئے تھے، پولیس ٹیم نے ملزمان کو جدید ٹیکنالوجی اور ڈیٹا اینالسز کی مدد سے گرفتار کیا، اور آلہ قتل پسٹل بھی برآمد کرلیا۔
ملزماؤں سے 30 تولے سونا اور 4لاکھ نقدی برآمد کرلی گئی، گرفتار گھریلو ملازمہ روبینہ اور اقرا نے گھر میں نقدی اور طلائی زیورات چوری کرنے کی واردات کی تھی۔