سپریم کورٹ نے ارشد شریف قتل ازخود نوٹس کیس میں پولیس کی جے آئی ٹی مسترد کرتے ہوئے اسپیشل جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم تشکیل دینے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے ارشد شریف قتل ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر بینچ میں شامل ہیں۔
ارشدشریف کی والدہ، سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری اطلاعات، ڈی جی ایف آئی اے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور آئی جی اسلام آباد عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ارشد شریف کی والدہ کا مؤقف بھی سنیں گے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالتی حکم پر ارشد شریف قتل کیس کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پڑھ کرسنائی اور بتایا کہ کینیا کے حکام سے تحقیقاتی ٹیم نے معلومات حاصل کیں، فائرنگ کرنے والے 3 اہلکاروں سے ملاقات کرائی گئی، چوتھے اہلکارکے زخمی ہونے کے باعث ملاقات نہیں کرائی گئی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کینیا میں متعلقہ وزیر اور سیکرٹری کابینہ سے ملاقات کی کوشش کررہے ہیں، ہائی کمیشن متعلقہ حکام کے ساتھ رابطے میں ہے، ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ مبینہ طورپرفائرنگ کرنے والے کون ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فائرنگ کرنے والے کینیا پولیس کے اہلکار ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ فائرنگ کرنے والوں نے پاکستانی ٹیم کو کیا بتایا رپورٹ میں نہیں لکھا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ رات ایک بجے عدالت کورپورٹ فراہم کی گئی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کینیا میں 4 دن پہلے نئی کابینہ بنی ہے، نئی کابینہ سے ملاقات کی کوشش کی جارہی ہے، کینیا کی حکومت اس کیس کی تحقیقات کررہی ہے، کینیا کے پاکستان میں سفارتخانے کے ساتھ بھی وزارت خارجہ رابطے میں ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ارشد شریف کے بیہمانہ قتل کے اصل شواہد کینیا میں ہیں، کینیا کے حکام کے ساتھ معاملہ اٹھانا ہوگا، فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کا کام قابل ستائش ہے۔
جسٹس مظاہرنقوی نے کہا کہ فائرنگ کرنے والےاہلکاروں کے نام تک رپورٹ میں نہیں لکھے گئے ، فائرنگ کرنےوالےاہلکاروں کے خلاف مقدمہ کیوں درج نہیں کیا گیا؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مقدمے میں کس بنیاد پر3 لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے؟۔
عامر رحمان نے کہا کہ جائزہ لینا ہوگا غیرملکیوں کے خلاف مقدمہ درج ہوسکتا ہے یا نہیں، انکوائری رپورٹ ریکارڈ کا حصہ بنے گی۔
جسٹس مظاہرنقوی نے کہا کہ انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے، تنبیہ کررہا ہوں کہ حکومت بھی معاملے کو سنجیدگی سے لے، عدالت صرف آپ کو سننے کے لئے نہیں بیٹھی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ رپورٹ کےمطابق مقدمے میں نامزد ملزمان کے اہم شخصیات سے رابطے ہیں،حکومت کاکام ہے کہ ایسے افسران لگائے جو آزادانہ تحقیقات کر سکیں، وقاراور خرم سے تحقیقات کا آغاز کیا جائے،ارشد شریف کی والدہ کا بیان ریکارڈ کیا جائے،یہ ایک کرمنل معاملہ ہے عدالتی کمیشن کی ضرورت نہیں۔
ارشد شریف کی والدہ نے کہا کہ مجھے صرف اپنے بیٹے کے لئے انصاف چاہیئے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ شکریہ کی ضرورت نہیں عدالت اپنا فرض ادا کررہی ہے۔
والدہ نے بتایا کہ جس طرح پاکستان سے ارشد کو نکالا گیا وہ رپورٹ میں لکھا ہے، دبئی سے جیسے ارشد کو نکالا گیا وہ بھی رپورٹ میں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ارشد شریف کی والدہ نے کئی لوگوں کے نام دیے ہیں، حکومت قانون کے مطابق تمام زاویوں سے تفتیش کرے۔
جسٹس مظاہرنقوی نے کہا کہ آپ کو تحقیقاتی ٹیم کو بیان ریکارڈ کرانا ہوگا، جس پر ارشد شریف کی والدہ نے جواب دیا کہ تحقیقاتی ٹیم کوبیان پہلے بھی ریکارڈ کرواچکی ہوں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ فوجداری مقدمہ ہے اس لیےعدالت نے کمیشن قائم نہیں کیا، کیس شروع ہی خرم اور وقار سے ہوتا ہے، جے آئی ٹی میں ایسا افسر نہیں چاہتے جوان کے ماتحت ہوجن کا نام آ رہا ہے، وزارت خارجہ شواہد جمع کرنے میں جے آئی ٹی کی مکمل معاونت کرے، اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں سے بھی معاونت ضروری ہو تو وزارت خارجہ معاونت کرے، ارشد شریف کے اہلخانہ سے تمام معلومات شیئر کی جائیں، یقینی بنانا ہے کہ قابل اور اہل افسران قانون کے مطابق اپنا کام کریں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ارشد شریف کی والدہ خود آنا چاہیں تو آ سکتی ہیں۔
ارشد شریف کی اہلیہ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کی کاپی فراہم کی جائے، جس پر جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا تھا کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پبلک ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے ارشد شریف قتل کے معاملے پر جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے۔
سپریم کورٹ نے ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لئے پولیس کی جے آئی ٹی مسترد کرتے ہوئے نئی انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دینے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی، پولیس، آئی بی اور ایف آئی اے کے نمائندے شامل کیے جائیں، نئی جے آئی ٹی کا حکومت نوٹیفکیشن جاری کرے۔