اسلام آباد میں پیر کو ہونے والے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پاور کے اجلاس میں بتایا گیا کہ 2005 میں کے الیکٹرک کی نجکاری کے بعد سے اس میں 474 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی گئی۔
سیف اللہ ابڑو کی زیرِصدارت اجلاس میں کمیٹی کو مزید بتایا گیا کہ کے الیکٹرک پر وفاقی اور صوبائی محکموں کے 475 ارب روپے واجب الادا ہیں۔
کے الیکٹرک کے سربراہ (سی ای او) مونس علوی نے سینیٹ کو بتایا کہ جب حکومت نے 2005 میں نجکاری کی گئی تو اس کے 72.3 فیصد شیئرز فروخت کیے اور اسے نجی کمپنی قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ اب حکومت کے پاس 24.6 فیصد شیئرز ہیں اور کل 13 ڈائریکٹرز ہیں، جن میں سے تین حکومتی اور 10 پرائیویٹ ہیں۔
کمیٹی نے حکومت کے درمیان معاہدے کی تجدید کے بارے میں سی ای او، کے الیکٹرک کی طرف سے تفصیلی ان کیمرہ بریفنگ کی سفارش کی۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پاور نے اوور بلنگ پر کے الیکٹرک کے خلاف انکوائری کا حکم بھی دے دیا ، کمیٹی کا کہنا ہے سرکلر ڈیٹ بڑھنے کی تحقیقات بھی ہوں گی۔
کمیٹی نے سوال اٹھایا کہ 2008 سے 2021 تک کے الیکٹرک کا گردشی قرض 292 ارب روپے تھا، اب جون 2021 سے اب تک چودہ ماہ میں کے الیکٹرک کا گردشی قرض 175 ارب کیسے بڑھا۔
سینیٹ کی قائمہ برائے پاور کے چیئرمین کمیٹی سیف اللہ ابڑو نے کے الیکٹرک سے گردشی قرض بارے تمام تفصیلات طلب کر لیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک سال میں کے الیکٹرک کے حکومت کی طرف کھربوں روپے کیسے بڑھ گئے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کے الیکٹرک نے اربوں روپے کی اوور بلنگ کی ہوگی۔ ملک کے ساتھ اور عوام کے ساتھ اتنا کھلواڑ کیوں ہوا۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اگر غلطی ثابت ہوئی تو معاملہ نیب یا ایف آئی اے کو بھیجیں گے۔ چیئرمین کمیٹی نے سیکرٹری پاور کو انکوائری کی ہدایت کر دی۔
اجلاس میں سی ای او کے الیکٹرک مونس علوی نے کہا کہ ہمارے موقف کے مطابق ہم نے 475 ارب روپے وصول کرنے ہیں۔ ہم نے حکومت کے 397 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ اس طرح حکومت نے ہمیں 78.3 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔
اس پر سیکریٹری پاور ارشد لنگڑیال نے کہا کہ اس پر حکومت کو اعتراض ہے ہمارے خیال سے ہمیں 75 ارب لینے ہیں۔ جس پر کے الیکٹرک سی ای او نے کہا کہ ہم نے اس پر عالمی ثالثی عدالت میں معاملہ لے جانے کا کہا ہے۔ حکومت تیار نہیں کیونکہ وہاں یہ مقدمہ ہار جائیں گے۔
سیکرٹری پاور نے کہا کہ ماہانہ کے الیکٹرک کو 46 فیصد بجلی فراہم کر رہے ہیں جس کا بل ادا نہیں کیا جا رہا۔ ہمارا موقف ہے کہ ہم نے کے الیکٹرک سے 457 ارب روپے لینا ہے اور 408 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ ہمارا رقم کا مسئلہ نہیں ہے اصل مسئلہ سود کا ہے جو 117 ارب روپے ہے۔
کے الیکٹرک سی ای او نے بتایا کہ واجبات میں ہم نے سود شامل نہیں کیا۔ جس پر کمیٹی چیئرمین نے کے الیکٹرک سی ای او کو آڑھے ہاتھوں لیا اور کہا کہ آپ پہلے بات کو مکمل ہونے دیں پھر بولیں۔
چیئرمین کمیٹی نے سی ای او کے الیکٹرک کو بات کرنے سے روک دیا۔
اجلاس میں کے الیکٹرک اور پاور ڈویژن کے واجبات کی تفصیلات پر تضادات پایا گیا۔ سیکرٹری پاور نے کہا کہ کے الیکٹرک نے ہمارے 457 ارب روپے دینے ہے، پاور ڈویژن نے 408 ارب کے الیکٹرک کو دینے ہیں۔ 117 ارب روپے اس میں انٹرسٹ ہے جو کے الیکٹرک نے دینے ہیں۔
کے الیکٹرک حکام کا موقف تھا کہ حکومت پاکستان نے 475 ارب روپے دینے ہیں، حکومت کو ہم نے 396 ارب روپے دینے ہیں، سی ای او نے کہا اگر ہم حکومت کو ادائیگیاں کرے تو بھی حکومت نے 78.3 ارب روپے دینے ہیں۔
چیئرمین کمیٹی سیف اللہ ابڑو نے کہا کہ سال 2008 میں گردشی قرضے کا معاملہ شروع ہوا تھا۔ کے الیکٹرک حکام نے کہا کہ 2008 میں 16 ارب حکومت سے لینے تھے اور 28 ارب ہم نے دینے تھے۔
کمیٹی چیئرمین نے کہا کہ 2008 میں 12 ارب آپ نے کیوں نہیں دیے۔ جس پر کے الیکٹرک حکام نے بتایا کہ اس وقت کی ای سی سی نے اقساط میں رقم ادا کرنے کی مہلت کا فیصلہ کیا تھا۔
کمیٹی کو سینیٹر مشتاق احمد خان کی جانب سے پیسکو کے بھرتی ٹیسٹ میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کو ملازمتوں کی فراہمی کے حوالے سے عوامی اہمیت کے نکتہ پر بحث کرتے ہوئے بتایا گیا کہ وزارت پاور ڈویژن نے تمام ڈسکوز کو ہدایت کی ہے کہ بھرتی کا عمل منجمد کر دیا جائے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ چونکہ بھرتی کا عمل مشکوک ہو گیا تھا، وزارت نے فیصلہ کیا کہ اس عمل کو مزید تیز کرنے کے لیے صرف تحریری ٹیسٹ کی حد تک نیشنل ٹیسٹنگ سروس (NTS) کو آؤٹ سورس کیا جائے۔
تاہم کمیٹی عہدیداروں کے جوابات سے مطمئن نہیں ہوئی اور معاملہ کو زیر التواء رکھا۔ کمیٹی نے یہ بھی سفارش کی کہ SDOs/AMs کی بھرتی اور شمولیت کا عمل بھی اس معاملے پر کمیٹی کی وضاحت تک زیر التواء رہنا چاہیے۔
کمیٹی نے معاہدے، فہرست میں شامل اور شارٹ لسٹڈ امیدواروں کی تفصیلات اور شفافیت کی رپورٹ بھی طلب کی۔
اجلاس میں سینیٹرز سیف اللہ سرور خان نیازی، ذیشان خانزادہ، شہزادہ احمد عمر احمد زئی، حاجی ہدایت اللہ خان بہرامند خان تنگی، محمد اسد علی خان جونیجو، مشتاق احمد خان، ثناء جمالی اور وزارت اور کے الیکٹرک کے حکام نے شرکت کی۔