سیلاب کو گزرے تین ماہ ہوگئے مگر صحبت پور کا نادرا آفس نہ کھل سکا، آج بھی نادرا آفس میں سیلابی پانی کھڑا ہوا ہے، نادرا آفس کے گراونڈ سے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کھڑے پانی کی نکاس نہیں ہوسکی۔
حالیہ سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی مچادی ہے، سینکڑوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور ایسے میں صحبت پور کے تمام سرکاری دفاتر بھی ڈوب گئے تو وہاں صحبت پور کا نادرا آفس بھی سیلابی پانی سے نہ بچ سکا۔
تین ماہ گزر جانے کے باوجود تاحال سیلابی پانی کھڑا ہوا ہے، لیکن ضلعی انتظامیہ کی جانب سے سیلاب کا پانی نکالنے کے لئے اقدامات نہیں کئے گئے ہیں۔
نادرا آفس میں سیلابی پانی کھڑا ہونے کے باعث عوام کو شدید مشکلات اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
صحبت پور کی عوام کو شناختی کارڈ کے حصول کے لئے جعفرآباد کے صدرمقام شہر ڈیرہ اللہ یار جانا پڑتا ہے۔
علاوہ ازیں سکول کے طلباء اور طالبات کو (ب) فارم بنوانے کے لئے بھی ڈیرہ اللہ یار کا طویل فاصلہ طے کر کے شدید اذیتوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
صحبت پور کی عوام اور طلباء نے وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو اور دیگر اعلیٰ حکام سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ نادرا آفس میں کھڑے پانی کو نکالنے کیلئے اقدامات کئے جائیں تاکہ عوام شناختی کارڈ بنانے کیلئے آسانی ہو۔
سیلاب متاثرین نے بلوچستان حکومت سے گاؤں سے سیلابی پانی نکال کر انہیں خیمے اور سردی سے بچاؤ کے لئے گرم کپڑے، کمبل اور خشک راشن کی فراہمی کا مطالبہ بھی کیا ہے تاکہ ان کی مشکلات اور تکالیف میں کمی ہوسکے۔