اسرائیل پُرعزم فلسطینی لڑکی کی بہادری پر مبنی فلم ’فرحا‘ کو نیٹ فلکس پر دکھائے جانے کی مذمت کرتے ہوئے تلملا اٹحا ہے جس کے پس پردہ فلسطینی عوام پر ڈھائے جانےوالے مظالم ہیں۔
فلم گزشتہ سال ٹورنٹو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں نمائش کیلئے پیش کی گئی تھی جواب نیٹ فلکس پردستیاب ہے۔ فرحا آسٹریلیا میں 15 ویں ایشیا پیسیفک اسکرین ایوارڈزمیں ’بیسٹ یوتھ فلم‘ کا ایوارڈ بھی اپنے نام کرچکی ہے۔
اردن سے تعلق رکھنے والے ہدایتکاردارین سلام کی ڈائریکشن میں بننے والی یہ فلم 14 سالہ فلسطینی لڑکی کی کہانی ہے جس کا گاؤں اسرائیلی فورسز کے حملے کی زد میں آتا ہے اور عام شہریوں کو قتل کیا جاتاہے۔
اسرائیل نے 1947 سے 1949 کے دوران 500 فلسطینی گاؤں اورشہر تباہ کیے ، اس دوران 7 لاکھ سے زائد فلسطینی بے گھر ہوئے۔ فلم میں 1948 کی اسرائیل فلسطین جنگ کے دوران صیہونی فورسز کے مظالم دکھائے گئے ہیں۔
اسرائیل کی سبکدوش ہونے والی حکومت میں بطور وزیرخزانہ کام کرنے والے سیکولردائیں بازو کے رہنما ایویگڈورلائبرمین نے بھی جافا تھیٹر سے ریاستی فنڈنگ واپس لینے کی تجویز پیش کی کیونکہ یہ تھیٹر فلم دکھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ جافا کو ریاستی سبسڈی دی جاتی ہے۔
لائبرمین کے مطابق، ’نیٹ فلکس کا یہ فلم نشرکرنے کا فیصلہ پاگل پن ہے، جس کامقصد جھوٹا ڈرامہ اوراسرائیلی فوجیوں کیخلاف اکسانا ہے۔‘
اسرائیلی وزیر ثقافت چلی ٹروپر کا کہنا ہے کہ فلم میں جھوٹ کی عکاسی کی گئی ہے اوراسکی نمائش کا منصوبہ ’رسوائی‘ ہے۔ تھیٹرانتظامیہ فلم کی نمائش کا فیصلہ واپس لے۔
فرحا سے قبل اسرائیلی ڈائریکٹر ایلون شوارز بھی بحیرہ روم کے ساحلی گاؤں تنتورہ میں فلسطینیوں کے مبینہ قتل عام پردستاویزی فلم بنا کرشدید ردعمل کا سامنا کرچکے ہیں۔