آرٹس کونسل کراچی میں پندرہویں عالمی اُردو کانفرنس کا آغاز ہوگیا، افتتاحی اجلاس میں ادیبوں کی کہکشاں نظر آئی، پہلا روز اقبال کی شاعری اور ضیاء محی الدین کی جادوئی آواز کے نام رہا۔
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی پندرہویں سالانہ عالمی اردو کانفرنس کا افتتاح جمعرات کی شام وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے آرٹس کونسل کے آڈیٹوریم میں کیا۔
وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آرٹس کونسل آف کراچی اس وقت پاکستان میں کلچر کا سب سے بڑا مرکز بن چکا ہے، کلچرل کے جتنے پروگرام اور کام سندھ میں ہوتے ہیں کسی اور صوبے میں نہیں ہوتے، عالمی اردو کانفرنس میں دنیا بھر سے اردو زبان کے عالم آتے ہیں اس سے بھی ثقافتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے صوبے سے ہمیشہ محبت اور امن کا پیغام جاتا ہے۔ اس صوبے کی اسمبلی نے پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی اور پاکستان بھر میں محبت کا پیغام یہاں سے عام کیا جاتا ہے، آرٹس کونسل کو پاکستان کا کلچر سینٹر بنانے میں پیپلزپارٹی کی بھی سرپرستی حاصل ہے۔
صوبائی وزیر ثقافت اور تعلیم سندھ سید سردار شاہ نے کہا کہ احمد شاہ نے آرٹس کونسل کو حقیقی معنوں میں پاکستان کا کلچر سینٹر بنا دیا ہے جہاں پاکستان کے فن و ثقافت کو زندہ کر دیا گیا ہے۔ سندھ نے جہاں شاہ لطیف اور سچل سرمست کی انگلی نہیں چھوڑی وہاں انور مقصود اور انور شعور کا دامن بھی پکڑا ہوا ہے۔
انور مقصود نے روایتی انداز اپناتے ہوئے کہا کہ احمد شاہ کافی عرصے سے اس عمارت میں ہیں میں نے ان سے کہا کہ اب چھڑی کسی اور کے ہاتھ میں دے دیں تو انہوں نے کہا کہ آپ کسی کو نامزد کریں میں اس کے حوالے کردیتا ہوں مگر میں کسی کو نامزد نہیں کر سکا۔
مجلس صدارت کی صدر زہرہ نگاہ نے کہا پاکستان ان دنوں طرح طرح کی مشکلات کا شکار ہے لیکن عام آدمی تو ان مشکلات کو سمجھ ہی نہیں سکتا، بڑھتی ہوئی مہنگائی میں اردو کانفرنس کا انعقاد بہادری کا کام ہے، مہنگائی اور گرتی ہوئی ساکھ نے صرف کمر ہی نہیں توڑی بلکہ انسان کا غروربھی توڑ کر رکھ دیا ہے۔
اردو کانفرنس کے پہلے روز کے دوسرے سیشن کی صدارت کرتے ہوئے جسٹس (ر) ناصرہ اقبال نے کہا ہے کہ اقبال نے ہمیں بحیثیت قوم جو نظریہ دیا تھا اس کی طرف ہمیں واپس لوٹنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اقبال کے مخاطب ہماری قوم کے نوجوان ہیں انہیں قوم کو آگے لےکر چلنا ہے تبھی ہم ترقی پذیری سے چھٹکارا پاسکیں گے۔ بدقسمتی سے ہم اقبال کا پڑھایا ہوا سبق بھول بیٹھے ہیں اور ہماری خودی و خود داری مشکوک ہوگئی ہے۔
کانفرنس کے تیسرے سیشن میں بین الاقوامی شہرت یافتہ ضیاءمحی الدین نے اردو ادب کے معروف مصنفین کے شاہکار مضامین اپنی مخصوص آواز میں پڑھ کر سنائے جنہیں حاضرین نے بے انتہا پسند کیا اور خوب داد دی۔
ضیاءمحی الدین کے سنائے گئے مضامین میں کچھ خاص جملوں کو انہوں نے جب اپنے مخصوص انداز میں سنا یا تو محفل کو زعفران زار بن گئی باالخصوص مشتاق احمد یوسفی اور ابن انشاءکے مضامین پر انہوں نے خوب داد سمیٹی۔
پہلے دن کے اختتام پر محفل قوالی کا بھی اہتمام کیا گیا جس میں فرید ایاز اور ابو محمد نے امیر خسرو کا کلام پیش کیا ۔
اردو کانفرنس چار روز جاری رہے گی جس میں صبح سے شام تک 45 سے زاہد سیشن رکھے گئے ہیں جس میں دنیا بھر سے آئے سینکڑوں دانشوروں، ادیبوں، شاعروں کے علاوہ غیر ملکی مندوبین بھی شرکت کرینگے۔