سیاست کے جادوگر سابق صدر آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ ان کے پاس نہ صرف پنجاب اسمبلی کو بچانے کے لیے ممبران کی کافی تعداد ہے بلکہ وہ کے پی اسمبلی میں بھی کوئی جادو چلا سکتے ہیں۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں میزبان اور سینئیر اینکر عاصمہ شیرازی کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں سابق صدر مملکت اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ عمران خان کی حکومت اپنے وزن پر گر رہی تھی، لیکن کچھ فیصلے ایسے تھے جو وزیراعظم کرتا ہے، ان (عمران خان) کی سوچ چھوٹی ہے اور سیاسی نہیں ہے۔ اگر یہ غلط فیصلہ کردیتا تو قوم کیلئے ، آپ کیلئے، میرے لئے رہنا مشکل ہوجاتا۔
انہوں نے کہا کہ سیاست میں جیت ہار ہوتی رہتی ہے، پہلے بھی اپوزیشن میں بیٹھے ہیں، جیلیں کاٹی ہیں، ہمیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں۔
سابق صدر نے کہا کہ جو یہ (عمران خان) کرنے جارہا تھا وہ ہم نے روک لیا، اب ایک نیا باب نئی سوچ اور نئی ہوا چلے گی اور ہم اس کا مقابلہ کریں گے۔
اس سوال پر کہ عمران خان کیا کرنے جارہے تھے جو آپ نے روک لیا، آصف زرداری نے کہا کہ ”کچھ تو میں آپ کو بتا سکتا ہوں، کچھ چیزیں نہ بتانا بھی مولا کی نظر میں گناہ نہیں ہے، اللہ کہتا ہے کہ کسی کو گواہ مت بناؤ، اب تو نے گواہ بنا دیا تو وہ اب تیرا گواہ ہے، پہلے تو اللہ کے بیچ اور انسان کے بیچ میں تھا، تیسرا آدمی آگیا اور اس نے سن لیا تو اب میرے بیچ میں اس کے بیچ میں اور پھر اللہ کے بیچ میں ہے۔ تو ایسی چیزیں ہیں کہ جو میں نہیں بات کرنا چاہوں گا۔“
ان کا کہنا تھا کہ نہ بتانے سے کافی دوستوں کو تکلیف ہوگی کافی دل ٹوٹیں گے، ہم تو دل جیتنے والے لوگ ہیں، دل توڑ تو سکتے نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت تبدیل ہونے سے کچھ نہیں ہوتا، جتنے مسائل آئیں جمہوریت اتنی مضبوط ہوتی ہے۔
اپنے دورِ صدارت میں اٹھارویں ترمیم اور دیگر فیصلوں پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صدر کے اختیارات وزیراعظم کو منتقل کرنا، اٹھارویں ترمیم یہ سب مجھے کسی نے تجویز نئے کئے تھے، یہ پیپلز پارٹی کا وژن تھا۔
اٹھارویں ترمیم پر اسٹبلشمنٹ کی ناراضگی پر انہوں نے کہا کہ ”اللہ انہیں ان کے نہ جاننے پر معاف کرے، یہ پاکستان کو جوڑنے کی بات ہے، بلوچ ہم سے الگ ہونا چاہ رہے ہیں ، کافی عناصر ہم سے لڑنا چاہ رہے ہیں، بارڈر پر ان سکیورٹیز ہیں، ان سب کو ملا کر ، وفاقی اکائیوں کو ملاکر ملک کو بچانا چاہ رہے ہیں۔“
نو منتخب آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ”میں ان صاحب کو جو اب چیف بن گئے ہیں جانتا نہیں ہوں، پنجاب سے میں صرف جنرل عامر کو جانتا تھا جو میرا ملٹری سیکریٹری تھا اور وہ چھٹے نمبر پر تھا۔ یہ انسٹی ٹیوشن کا فیصلہ ہے اور انسٹی ٹیوشن کے فیصلے پر نیا آرمی چیف آیا ہے۔“
ان کا کہنا مزید تھا کہ آرمی چیف کا تقرر میرٹ پر ہوا ہے، میں نے وزیراعظم کو فیصلے کا مکمل اختیار دیا، میں نے ان سے کہا کہ ”ہم آپ کو اتھارٹی دیتے ہیں آپ اپنا کانسٹی ٹیوشنل رائٹ (آئینی حق) استعمال کریں۔“
جنرل عامر کیلئے لابنگ کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ”جنرل عامر کیلئے میں چاہتا تھا، جھوٹ کیوں بولوں، لیکن میں کر نہیں سکا کیونکہ حالات ایسے نہیں تھے۔ اگر وہ سیکنڈ نمبر پر ہوتا تب بھی میں کچھ کرتا۔“
سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے مدتِ ملازمت میں توسیع مانگنے کے حوالے سے آصف علی زرداری نے کہا کہ “جنرل باجوہ نے کبھی مجھ سے ایکسٹینسن کا نہیں کہا، وزیر اعظم کو کہا ہوگا، وہ بڑے آدمی ہیں ، ہم تو فقیر لوگ ہیں ہمیں کوئی کیا کہے گا۔ “
انہوں نے شہباز شریف کی کی طرف اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ ”اس شریف آدمی کی بھی ایک اچھی بات ہے کہ اس نے ہمیں بلا کر پوچھا، وہ خود (آرمی چیف) لگا دیتا تو ہم کیا کرتے، اس کو چھوڑ تو نہیں سکتے۔“
سائفر کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ”یہ ساری امیچور باتیں ہیں، ایک پرچہ لہرا کر کہ امریکا میں یہ ہورہا ہے، تم زندگی بھر کیلئے امریکنز کی ”بیڈ بُک“ میں کیوں آنا چاہتے ہو، اور تم تو جاؤ پاکستان کو کیوں لے جانا چاہتے ہو۔ ہم تو کسی ملک کی بیڈ بک میں نہیں آنا چاہتے، میرے زمانے میں کیا کچھ نہیں ہوا، ہم نے مقابلہ کیا۔“
باجوہ ڈاکٹرائن سے اتفاق کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ”باجوہ ڈاکٹرائن میں کچھ باتیں صحیح بھی تھیں کچھ باتیں غلط بھی تھیں، اس نے بیٹھ کر کبھی ہم سے ڈسکس نہیں کیا، وہ پارلیمنٹیرینز کو بلا لیتا تھا، کبھی کسی کو، میرے سے پرسنلی بیٹھ کر اس نے کبھی ڈسکس نہیں کیا کہ میری یہ ڈاکٹرائن ہے، اور یہ غلط ہے وہ صحیح ہے یا اس کو صحیح کرنے کی ضرورت ہے۔“
عمران خان کی مقبولیت کے حوالے سے آصف زرداری نے کہا کہ ”دو مہہینے لگا کر، خود کو گولیاں لگوا کر پچیس ہزار آدمی اکٹھے کروں تو کیا مقبولیت ہے۔“
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں ہمارے پاس عمران خان کے خلاف امیدوار موجود ہیں، ”میانوالی میں نواب آف کالا باغ ہماری پارٹی سے کھڑے ہوکر عمران خان کا مقابلہ کریں گے، انہوں نے ہمیں جوائن کرلیا ہے۔“
پی ٹی آئی جلسوں کے اخراجات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ دیکھنا ہے یہ ٹھیکیداروں کوپوری ادائیگی کیسے کررہے ہیں، جتنا کام ہوتا ہے ٹھیکیدار کو اتنی ادائیگی کی جاتی ہے، یکمشت نہیں۔ اس پر احتساب کریں گے۔
توشہ خانہ کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ گھڑی بیچی گئی ہے تو یہ ان کی غلطی تھی، ہم نے گاڑیاں قیمت ادا کرکے حاصل کیں وہ بھی اس لئے کہ وہ بم پروف گاڑیاں تھیں۔
توشہ خانہ اور دیگر معاملات میں عمران خان کے احتساب پر انہوں نے کہا کہ عمران خان کا احتساب کرنا ہے تو وہ نیب کرے گا، اگر نیب نے احتساب نہ کیا تو خود جواب دے گا۔
گرفتاری کے سوال پر آصف زرداری نے کہا کہ عمران خان چھپکلی سے ڈرتے ہیں، وہ الیکشن سے پہلے گرفتار بھی ہوسکتے ہیں اور نااہل بھی، وہ تھانے میں پہنچیں کبھی۔
مہنگائی تصور سے باہر ہونے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ”میں تصور نہیں کرسکتا؟ 12 ہزار روپے کی ڈی اے پی یوریا کی بوری خریدتا ہوں جو ایک زمانے میں 1800 روپے کی تھی۔ میرے ساتھ اتنا قافلہ چلتا ہے تو گاڑیوں کے پیٹرول کا خرچہ بھی ہے، وہ بھی مجھے دینا پڑتا ہے، میرے خرچے بڑھ گئے اس لئے مجھے سب سے زیادہ احساس ہے۔“
ان کا کہنا تھا کہ معیشت کو بہتر کرنے میں وقت لگتا ہے، اس کیلئے آؤٹ آف دی باکس سوچنا ہوگا، حکومت سے چھ ماہ سے کہہ رہا ہوں کہ چینی برآمد کرو، تھرمیں ہمارے پاس کوئلہ ہے، چین کوئلے سے گیس بناتا ہے، چین کو کوئلہ دے کر گیس اور یوریا بنوایا جاسکتا ہے۔ تو خودکار طریقے سے یہاں قیمتیں کم ہوجائیں گی۔
اسمبلیاں تحلیل ہونے اور اس صورت حال سے نمٹنے کے طریقوں پر بات کرتے ہوئے آصف زرداری کا کہنا تھا کہ ہنجاب میں میرے پاس نمبرز ہیں اور میں نمبرز مزید بڑھا سکتا ہوں۔
پرویز الہٰی سے مفاہمت کے سوال پر انہوں نے کہا کہ پنجاب میں پرویزالہیٰ کےعلاوہ بھی بہت سی بہتر چوائس ہیں، انہیں میں نے ڈپٹی وزیراعظم بنایا، 17 وزارتیں دے چکا ہوں، پرویزالہیٰ اب دوریوں میں ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ قبل ازوقت انتخابات جمہوریت کیلئے اچھے نہیں اور نہ ہمارے لئے اچھے ہیں۔ اسمبلیاں تحلیل ہوئیں تو انتخاب ہوگا اور پھر دیکھتا ہوں کہ یہ (عمران خان) کتنے ایم پی اے بناتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ”اسمبلیاں توڑیں گے تو ہم الیکشن لڑیں گے، اگر نہیں توڑیں گے تو ہم اپوزیشن کرتے رہیں گے۔“
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا پنجاب میں عدم اعتماد کا ووٹ لانا ممکن ہے؟ تو جواب میں زرداری نے کہا کہ ہم کے پی میں بھی تحریک عدم اعتماد لائیں گے۔
عاصمہ شیرازی نے جب ان کے سامنے یہ حقیقت رکھی پی ڈی ایم کے پاس پختونخوا میں اتنی نشستیں نہیں کہ وہ عدم اعتماد میں کامیابی حاصل کرسکیں تو آصف زرداری نے کہا، ”تھوڑے دوست گمراہ ہیں، انہیں واپس لانا ہے۔“
ان کا کہنا تھا کہ ایسا طریقہ کریں گے کہ استعفے نہ آئیں اور اسمبلیاں چلتی رہیں۔
آنے والے ممکنہ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہم نے ووٹ نہیں خریدے، مستقبل سے متعلق بات ضرور ہوتی ہے، لیکن ووٹ خریدنے کی کبھی ضرورت نہیں پڑی۔
بھارت سے تجارت اور تعلقات پر آصف زرداری نے کہا کہ بھارت کشمیر ایسے کھا گیا جیسے کوئی بات ہی نہیں، چھوٹی سوچ رکھنے والے لوگ ہیں وہ، پاکستان کی برآمدات بڑھ جائے تو بھارت سےتجارت کیلئے الگ انداز میں بات کریں گے، ابھی جس زبان میں بات کرنی پڑتی ہے وہ زبان ہمیں سوٹ نہیں کرتی۔
ان کا کہنا تھا کہ صرف چینی برآمد کرکے ہی ایک ارب ڈالر حاصل کرسکتے ہیں، پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا تو کوئی خطرہ ہی نہیں ہے۔
عمران خان سے بات کرنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ”بات کرنے کیلئے انسان کو پہلے اپنا کردار بہتر کرنا پڑتا ہے، یہ تو نہیں ہو سکتا کہ میں بھونکتا رہوں اور کوئی آکر مجھے بات کرے گا، پہلے آپ بھونکنا بند کرو پھر دوسروں سے بات کرو۔“
انہوں نے کہا کہ اگر بات کرنا چاہتے ہیں تو میاں صاحب حکومت ہیں وہ بات کریں۔
کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے حالیہ جنگ بندی ختم کرنے کے اعلان پر انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی پاکستان کیلئے ایک لازم خطرہ ہے۔
صدر عارف علوی کے مواخذے پر انہوں نے کہا کہ صدرمملکت بے اختیار ہیں ان کے پاس کیا لینے جائیں گے، ان کے مواخذے کی بات قبل ازوقت ہے۔