پنجاب حکومت اسمبلی تحلیل کرنے اور اپوزیشن اسمبلی بچانے کے لیے مختلف آپشنز پر غور کرنے میں لگی ہوئی ہے۔
اپوزیشن کی جانب سے وزیرِاعلیٰ پنجاب کے خلاف جلد عدم اعتماد کی تحریک جمع کروانے پر غور کیا جارہا ہے، جبکہ دوسرے آپشن کے طور پر گورنر کے ذریعے وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا جائے گا، اگر کامیابی نہ ملی تو گورنر راج لگانے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
دوسری جانب پنجاب کے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی اور وزیراعلیٰ پنجاب، عمران خان کے اشارے کے منتظر ہیں۔
کپتان نے کہا کہ اسمبلی توڑ دو تو وزیر اعلیٰ اس ایڈوائس پر عمل کریں گے اور اگر اراکین سے استعفے دینے کا کہا گیا تو اراکین اسپیکر کے پاس اپنے استعفے جمع کروائیں گے۔
مگر کپتان کے اشارے میں ابھی چند دن باقی ہیں کیونکہ پہلے وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویزالہٰی اور مونس الہٰی کی ملاقات اور پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہونا ہے۔
خیبر پختونخواہ اسمبلی کی پارلیمانی پارٹی کا بھی اجلاس ہونا باقی ہے، جس کے بعد مشترکہ فیصلہ ہونا ہے۔
مگر اس سے پہلے پنجاب کی اپوزیشن، مسلم لیگ ن اسمبلی بچانے کے محاذ پر سرگرم ہوچکی ہے، پنجاب کی اپوزیشن اسمبلی کی تحلیل روکنے کیلئے عدم اعتماد کی تحریک جمع کروانے جارہی ہے جس پر کام مکمل کرلیا گیا ہے۔
گو کہ عدم اعتماد کی تحریک جمع کروا کر اسمبلی کی تحلیل تو نہیں روکی جاسکتی، کیونکہ عدم اعتماد کی تحریک کی صورت میں اپوزیشن کو 186 اراکین پورے کرنا ہوں گے، جبکہ اپوزیشن کے پاس صرف 180 اراکین ہیں۔ تاہم اس تحریک کے جمع کروانے سے اسمبلی کی فوری تحلیل ووٹنگ تک رک سکتی ہے۔
دوسری طرف اپوزیشن نے گورنر کے ذریعے اعتماد کا ووٹ لینے کا بھی انتظام کرلیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جب گورنر کو وفاقی حکومت کی طرف سے اعتماد کا ووٹ لینے کا اشارہ ملے گا گورنر فوری طور پر وزیراعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہیں گے۔
اس سلسلے میں لیگی حلقوں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے کچھ اراکین ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں اور اعتماد کے ووٹ والے دن وہ غیر حاضر ہو جائیں گے، اس طرح چوہدری پرویز الہٰی اعتماد کا ووٹ حاصل نہیں کرسکیں گے۔
لیگی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر دونوں آپشن ناکام ہوئے تو پھر آخری آپشن کے طور پر پنجاب میں گورنر راج بھی لگایا جاسکتا ہے۔
اس سلسلے میں گورنر پنجاب بلیغ الرحمان کا موقف ہے کہ آئین اور قانون گورنر راج نافذ کرنے کی اجازت دیتا ہے، مگر یہ آخری آپشن ہے اور اس کو اس وقت استعمال کیا جائے گا جب پنجاب میں امن و امان کی صورتِ حال اس قسم کی نہ بگڑے کہ ہمیں یہ اقدامات کرنا پڑیں۔