چین چاند پر بنائے جانے والے اپنے بیس کو بجلی فراہم کرنے کے لیے ایک نیا جوہری نظام تیار کر رہا ہے۔
ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ (SCMP) کی ایک رپورٹ کے مطابق، چین گزشتہ دہائی میں اپنے خلائی پروگرام کی رفتار کو کافی تیز کرچکا ہے، جس میں چاند کو کھنگالنے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
چین نے 2013 میں چاند پر اپنی پہلی لینڈنگ بغیر کسی انسان کے کی تھی اور توقع ہے کہ اس دہائی کے آخر تک چاند پر ایسے طاقتور راکٹ لانچ کیے جائیں گے جو خلا بازوں کو چاند پر پہنچا سکیں۔
امریکی خلائی ایجنسی ”ناسا“ کا کہنا ہے ہو سکتا ہے چین اپنے عسکری خلائی پروگرام کے ایک حصے کے طور پر چاند پر قبضہ کرنے پر غور کر رہا ہے، تاہم اس الزام کو بیجنگ نے مسترد کر دیا ہے۔
چاند کے جنوبی قطب پر چین کے اسٹیشن کو طاقت دینے کے لیے جوہری توانائی کے استعمال کے فیصلے کے بارے میں قمری منصوبے کے سربراہ وو ویران کا کہنا ہے کہ ”ہم اب ایک نیا نظام تیار کر رہے ہیں جو جوہری توانائی کے زریعے لیونر اسٹیشن کی طویل عرصے اور انتہائی طاقتور توانائی کی ضرورت کو پورا کرسکے گا۔“
وو ویران نے خلائی ایجنسی کے منصوبوں کے بارے میں کوئی تفصیلات نہیں بتائیں، چینی آؤٹ لیٹ نے کہا کہ یہ ایک میگا واٹ بجلی پیدا کر سکتا ہے، جو ایک سال تک سینکڑوں گھروں کو بجلی فراہم کرنے کے لیے کافی ہے۔
جوہری توانائی سے پیدا ہونے والی پاور کا استعمال آکسیجن پیدا کرنے، آلات چلانے اور پانی نکالنے جیسی دیگر چیزوں میں کیا جائے گا۔
ایس سی ایم پی کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ چین کا مون سٹیشن 2028 تک مکمل ہونے کی امید ہے۔
توقع ہے کہ چین آنے والے برسوں میں مزید غیر انسانی قمری مشن شروع کرے گا، جس کا ایک مقصد پانی کا مطالعہ ہے۔
چاند پر پانی کی موجودگی نظام شمسی کے ارتقاء پر مزید روشنی ڈال سکتی ہے۔ یہ کسی بھی طویل مدتی انسانی رہائش کے لیے ضروری پانی کے وسائل کی طرف بھی اشارہ کر سکتا ہے۔