ٹیکنالوجی کی دنیا میں گذشتہ ہفتے سب سے بڑی ”خبر“ یہ آئی کہ گوگل کا پلے اسٹور پاکستان میں بند ہونے والا ہے کیونکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کچھ پابندیاں لگا دی ہیں۔ تاہم آج نیوز کی چھان بین سے معلوم ہوتا ہے کہ گوگل کا پلے اسٹور یا ایپل کا ایپل اسٹور پاکستان میں بند نہیں ہو رہے بلکہ اصل جھگڑا کچھ اور ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے جو پابندی لگائی ہے وہ موبائل کمپنیوں کی طرف سے اپنے صارفین کو فراہم کی گئی ”ڈائریکٹ کیرئیر بلنگ“ کی سہولت پر ہے۔
ڈائریکٹ کیرئیر بلنگ کی سہولت کے تحت بعض موبائل فون کمپنیوں کے گوگل اور ایپل کے ساتھ معاہدے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ اگر آپ پلے اسٹور یا ایپل اسٹور سے کوئی ایسی اپپ ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتے ہیں جو مفت میں دستیاب نہیں بلکہ اس کے لیے ادائیگی کی ضرورت ہوتی ہے تو آپ کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ استعمال کیے بغیر ایسا کر سکتے ہیں۔ آپ کو صرف یہ کرنا ہوگا کہ ایپ کی قیمت کے برابر رقم کا بینلس لوڈ کرنا ہوگا۔ جب آپ ایپ خریدیں گے تو یہ رقم آپ کے بیلنس سے منہا ہوکر ایپ بنانے والے کو منتقل ہو جائے گی۔
ہوتا یہ ہے کہ جب آپ کے اکاؤنٹ سے رقم روپوں کی صورت میں منہا ہوتی ہے تو موبائل کمپنی اس رقم کے برابر ادائیگی ڈالروں کی صورت میں گوگل کو کردیتی ہے۔ گوگل سے ایپ بنانے والے کو ادائیگی ہو جاتی ہے۔
اب چونکہ موبائل کمپنیاں ڈالر کی صورت میں گوگل کو ادائیگی کر رہی ہیں تو پاکستان سے ڈالر کا انخلا ہورہا ہے۔ اس انخلا کو روکنے کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پابندی لگائی ہے۔
سادہ لفظوں میں کہا جائے تو اسٹیٹ بینک کی جانب سے لگائی گئی پابندی سے صرف اتنا فرق پڑا ہے صارفین موبائل میں بیلنس ڈال کر ایپ خریدنے کی سہولت سے محروم ہو گئے ہیں۔ اس کا گول پلے یا ایپل اسٹور کے کام کرنے سے کوئی تعلق نہیں ۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ہفتہ کو جاری کی گئی ایک پریس ریلیز میں اس کی وضاحت بھی کی ہے اور بہت سی باتوں کو ”بے بنیاد“ قرار دیا ہے۔
بزنس ریکارڈ نے جب ٹیلی کام کے شعبے کے بین الاقوامی کنسلٹنٹ پرویز افتخار سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہاکہ صارفین کریڈٹ کارڈ اور ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے ایپس خرید سکتے ہیں جب کہ گوگل کی سروسز بھی پاکستان میں دستیاب رہیں گی۔ یہ ختم نہیں کی جا رہیں۔
تاہم پرویز افتخار کا کہنا تھا کہ گوگل پلے اسٹور پاکستان میں ایپس کی خریداری کے لیے استعمال ہونا والا سب سے بڑا آن لائن اسٹور ہے اور اسٹیٹ بینک کی پابندی سے اسے مالی جھٹکا ضرور لگے گا۔پاکستان میں لوگ کریڈٹ کارڈ بنوانا پسند نہیں کرتے اور ڈیبٹ کارڈ سے ادائیگی کافی مشکل ثابت ہوتی ہے۔
پرویز افتخار کے مطابق ٹیلی کام کمپنیوں کو نقصان یہ ہوگا کہ لوگ وہ ایپس استعمال نہیں کر سکیں گے جن کے لیے انہیں ماہانہ یا سالانہ ادائیگی کرنا ہوتی ہے، اس طرح ڈیٹا کا استعمال کم ہو جائے گا اور موبائل کمپنیوں کی آمدن متاثر ہوگی۔
”اس کے علاوہ [ادائیگی کی] سروس بند ہونے سے پاکستانی ایپ ڈیولپرز کی آمدن متاثر ہوسکتی ہے۔ اس کے بہت دور رس اثرات ہوں گے۔“
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ٹیلی کام کمپنیوں کی جانب سے گوگل کو جس رقم کی ادائیگی روکی ہے وہ صرف 3 کروڑ 40 لاکھ ڈالر ہے۔ بین الاقوامی تجارت کے تناظر میں یہ بڑی رقم نہیں۔
پرویز افتخار نے امید ظاہر کی کہ چونکہ رقم بڑی نہیں لہذا یہ مسئلہ جلد حل ہو جائے گا۔ وہ کہتے ہیں،”یہ عارضی صورت حال معلوم ہوتی ہے۔“
یاد رہے کہ وزارت آئی ٹی اور چار موبائل فون کمپنیوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو خط لکھ کر پابندی اٹھانے کی درخواست کی ہے۔