سپریم کورٹ نے سیکرٹری داخلہ اور چیف سیکرٹری سندھ کو مہرین بلوچ کے لاپتہ بچیوں کی بازیابی کا حکم دے دیا،جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لاپتہ شہری کو ٹریس کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، ریاست بچیوں کی بازیانی میں ناکام ہوتی ہے تو کس کو ذمہ ٹھہرائے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3رکنی بینچ نے مہرین بلوچ کے لاپتہ بچیوں کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
والدہ مہرین بلوچ نے مؤقف اپنایا کہ ماسوائے سپریم کورٹ کے کسی عدالتی فورم سے بازیابی کی امید نہیں،میری بچیوں کو سابق خاوند آصف بلوچ نے 6 سال سے لاپتہ کر رکھا ہے۔
ڈی آئی جی حیدر آباد نے عدالت کو بتایا کہ بچیوں اور والد سے متعلق کچھ خفیہ انفارمیشن ہیں، بازیابی کے لئے اقدامات اٹھائیں جا رہے ہیں۔
عدالت نے سیکرٹری داخلہ اور چیف سیکرٹری کو حکم دیا کہ بچیوں کی بازیابی کے اقدامات اٹھائیں، بچیوں کی بازیابی سے متعلق رپورٹ جنوری کے پہلے ہفتے میں پیش کی جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ والدہ کا دکھ بچیوں کے لاپتہ ہونے پر سمجھ سکتے ہیں، شہریوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر کوئی شہری لاپتہ ہے تو ریاست کی ذمہ داری ہے اس کو ٹریس کرے، ریاست بچیوں کی بازیانی میں ناکام ہوتی ہے تو کس کو ذمہ ٹھہرائے۔
عدالت عظمیٰ نے سماعت جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی۔
دوسری جانب سپریم کورٹ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے ازخود نوٹس کیس میں تمام سیکیورٹی اداروں کو قانون کی پاسداری کرنے کا حکم دے دیا ۔
جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3رکنی بینچ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اس وقت وفاقی حکومت کی طرف سے کسی صحافی کے خلاف کرمنل کارروائی نہیں چل رہی۔
وکیل حیدر وحید نے مؤقف اپنایا کہ صحافیوں کے کیس میں سول سوسائٹی کی طرف سے ایک اور درخواست بھی داخل کی ہے، درخواست ہے کہ جو حق آزادی رائے کا تحفظ الیکٹرونک میڈیا پر حاصل ہے وہی سوشل میڈیا پر بھی ہو۔
سپریم کورٹ نے تمام سیکیورٹی اداروں کو قانون کی پاسداری کرنے کا حکم دے دیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وقت کی کمی کے باعث کیس آج نہیں سن سکتے۔
بعدازاں عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دی۔