Aaj Logo

اپ ڈیٹ 24 نومبر 2022 06:31pm

جنرل عاصم منیر آرمی چیف، جنرل ساحر شمشاد کو جوائنٹ چیفس مقرر کرنے کا فیصلہ

وفاقی حکومت نے جنرل عاصم منیر کو نیا آرمی چیف اورلیفٹننٹ جنرل ساحرشماد مرزا کو چیئرمین جوائنٹس چیفس آف اسٹاف کمیٹی تعینات کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر اور لیفٹننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا کو فوراسٹار کےعہدے پرترقی دے دی گئی۔

وزیرمملکت مریم اورنگزیب نے اپنی ٹویٹ میں بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے لیفٹنٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا کو چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف اور لیفٹنٹ جنرل سید عاصم منیر کو چیف آف دی آرمی سٹاف مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیردفاع خواجہ آصف نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس حوالے سے سمری صدرمملکت کو ارسال کردی گئی ہے۔

صحافیوں کے سوالات کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ ابھی کوئی تفصیلات نہیں بتا سکتا، یہ استحقاق وزیراعظم ہاؤس کا ہے۔ امید ہےکہ صدر کوئی ایسا تنازع کھڑا نہیں کریں گے اور قانون کے مطابق تقرریوں کو سیاسی نقطہ نظر سے نہیں دیکھیں گے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ صدر پاک افواج کے سپریم کمانڈرہیں ، انہیں اداروں کو متنازع نہیں بنانا چاہیے۔ امید ہے کہ وہ اپنا فیصلہ سیاسی اثرورسوخ کے تحت نہیں کریں گے۔

پاکستان کے نئے آرمی چیف کی تقرری کا فائنل راؤنڈ آج جمعرات کو اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں زیربحث آیا۔ خصوصی اجلاس سے قبل وزیراعظم نے گزشتہ روز وزیراعظم ہاؤس میں اتحادی جماعتوں کے قائدین کے ساتھ مشاورتی اجلاس میں بھی آرمی چیف کی تعیناتی پرمشاورت کی تھی۔آصف زرداری اور دیگر شرکاء نے وزیراعظم پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئین نے اختیار واستحقاق وزیراعظم کو سونپا ہے، لہٰذا آپ جو فیصلہ کریں، ہم ساتھ ڈٹ کرکھڑے ہیں۔

نئے آرمی چیف کے تقرر کے لیے سمری وزیراعظم ہاؤس کو موصول ہونے پر ابہام منگل کو نصف شب اس وقت ختم ہوگیا تھا جب آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا کہ چھ سینئر جرنیلوں کے ناموں پر مشتمل سمری جی ایچ کیو سے وزارت دفاع کو ارسال کردی گئی ہے۔

وزیراعظم آفس کی جانب سے کل وزارت دفاع کی جانب سے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور چیف آف آرمی اسٹاف کی تقرری کے لیے ناموں کے کے ساتھ سمری موصول ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا کہ سمری پر وزیراعظم طے شدہ طریقہ کار کے مطابق فیصلہ کریں گے۔

ذرائع نے بتایا کہ سمری میں لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کا نام پہلے نمبر پر، لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا کا نام فہرست میں دوسرے جب کہ لیفٹیننٹ جنرل اظہرعباس سنیارٹی لسٹ میں تیسرے نمبر پر تھے۔فور اسٹار جنرلز کی سنیارٹی لسٹ میں لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود چوتھے نمبر پر تھے جب کہ سابق ڈی جی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا نام فہرست میں پانچویں اورچھٹے نمبر پرلیفٹیننٹ جنرل عامر رضا کا نام تھا۔

منگل کو وزیراعظم شہبازاوروزیر دفاع خواجہ آصف کے درمیان نئے آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے“اہم مشاورتی“ ملاقات ہوئی تھی، ذرائع نے بتایا کہ اس موقع پروزیراعظم کے معاون خصوصی ملک احمد خان اور ڈائریکٹر جنرل انٹرسروسزانٹیلی جنس (ڈی جی آئی ایس آئی) بھی موجود تھے۔

بعد ازاں اہم اتحادی اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی وزیراعظم سے ملاقات کی جس میں مجموعی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اسی شب وزیردفاع خواجہ آصف نے رات گئے اپنی ٹویٹ میں لکھا تھا، ”سمری وزارت دفاع سے وزیراعظم آفس میں موصول ہوگئی،انشاءاللہ باقی مراحل بھی جلد طے ہوجائیں گے“۔

خواجہ آصف نے منگل کو ایک نجی نیوزچینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف کی تقرری پر ادارے کے ساتھ کوئی تنازع نہیں ہے۔ انتخاب کا عمل اگلے دو روز میں مکمل کر لیا جائے گا، وزیر اعظم اتحادی جماعتوں سے مشاورت کریں گے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ سیکیورٹی ادارے سے بھی اس معاملے پر بات ہوگی۔

طریقہ کار

سمری وصول کرنے کے بعد عملدرآمد تک کا مرحلہ کیسے طے کیا جاتا ہے؟ اس کا جواب آئین کے آرٹیکل 243، رولز آف بزنس 1937 اور روایت طریقہ کار میں موجود ہے۔

طریقہ کارکےمطابق آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے قبل وزیراعظم آفس خط لکھ کر وزارت دفاع سے نئے آرمی چیف کی تعیناتی کیلئے سمری منگواتا ہے جس پر وزارت دفاع کی جانب سے پاک فوج کے سپہ سالارسے نئی تعیناتی کیلئے ناموں کی فہرست مانگی جاتی ہے۔

آرٹیکل 243(3) کے مطابق صدر تینوں مسلح افواج کے سربراہان کا تقرروزیراعظم کی ایڈوائس پرکرتا ہے۔ 18ویں ترمیم سے قبل لفظ مشورہ مشاورت تھا، تاہم اس کا مطلب اب بھی یہی ہے کہ صدر کو وزیراعظم کے مشورے پرعمل کرنا ہوگا۔

رولز آف بزنس 1973 کے شیڈول 5 اے میں کہا گیا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے اور اس سے اوپر کی تمام تقرریاں صدر اور وزیر اعظم کے درمیان مشاورت کے ذریعے کی جانی چاہئیں۔ تاہم عملی طور پر آرمی چیف فیصلہ کرتا ہے کہ کسے تھری اسٹارکے عہدے پر ترقی دی جائے گی۔

جی ایچ کیو کی جانب سے بھیجی گئی سمری صرف آرمی چیف کی رائے نہیں بلکہ پوری آرمی ہائی کمان کی مرضی کی عکاسی کرتی ہے۔

کیا صدر سمری روک سکتے ہیں؟

صدر کو 10 دن کے اندر سمری کی منظوری دینی ہوتی ہے لیکن اگر انہیں کوئی مسئلہ نظرآئے تو سمری کو واپس بھیجا جا سکتا ہے۔ ایسے میں یہ مزید 15 دن تک وزیراعظم کے دفتر میں رہے گی۔

اس طرح سے سمری صدر کو بھیجے جانے کے بعد بھی تقرری کا معاملہ مجموعی طور پر 25 دن تک موخر ہوسکتا ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ صدر اتفاق کرتے ہیں یاسمری دوبارہ غورکے لیے واپس بھجوا دیتے ہیں۔

یہ بات اہم ہے کہ صدر مملکت عارف علوی کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے اور وہ اس معاملے پرتنازع پیدا کرسکتے ہیں۔ اگرمسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم شہباز شریف فوج کی تجاویزحاصل کیے بغیر آگے بڑھنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور صدر سمری واپس کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو یہ سارا عمل ٹھپ ہوجائے گا۔

وزیراعظم کی جانب سے سمری وصول کیے بغیر ایسا فیصلہ کرنے کی صرف ایک مثال ہے۔ اکتوبر 1999 میں شہبازشریف کے بڑے بھائی اور اس وقت کے وزیراعظم نے نوازشریف نے جنرل پرویز مشرف کی جگہ ضیاء الدین بٹ کو وزیراعظم بنانے کی کوشش کی تھی ۔

چھ سال تک پاک فوج کی کمان سنبھالنے والے جنرل قمر جاوید باجوہ رواں ماہ کے اختتام پرریٹائر ہو رہے ہیں، نومبر 2016 میں بطورآرمی چیف تقرری کے بعد 2019 میں آرمی چیف کی مدت سے متعلق عدالتی حکم پر قانون سازی کے بعد انہیں 3 سال کی توسیع دی گئی تھی۔

گزشتہ شب جنرل قمرجاوید باجوہ نے یوم دفاع و شہدا کی تقریب سے اہم خطاب کیا جو ہرسال 6 ستمبر کو جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) راولپنڈی میں 1965 کی جنگ کے شہید ہیروز کی قربانیوں کی یاد میں منعقد کی جاتی ہے۔ تاہم اس سال ملک بھر کے سیلاب متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اسے ملتوی کر دیا گیا تھا۔

Read Comments