یومِ دفاع اور شہداء کی تقریب سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت کا اعتراف کیا تو دوسری جانب ایک بار پھر آئندہ اس مداخلت سے دور رہنے کا اعلان بھی کیا۔
آرمی چیف کے اس بیان کو غلطیوں کا اعتراف قرار دے کر قابل تحسین اقدام کہا جارہا ہے۔
آج نیوز سے وابستہ سینئیر صحافی اور پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ کی میزبان عاصمہ شیرازی کہ فوج کو مداخلت کا احساس ہونا اچھی بات ہے، امید ہے غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی۔
عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ 2018 کے انتخابات کے بعد جو ہائبرڈ رجیم بنایا گیا اس کا ملبہ اسٹیبلشمنٹ پر گرایا جاتا رہے گا، جو صورتِ حال بنائی جا چکی ہے اس کے اثرات قائم رہیں گے۔
اپنے خطاب میں آرمی چیف نے 1971 کی جنگ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہ ”سابقہ مشرقی پاکستان ایک فوجی نہیں سیاسی ناکامی تھی۔“
آرمی چیف کے اس بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے عاصمہ شیرازی نے کہا کہ ”اس موقع پر یہ بات نہ کرتے تو زیادہ مناسب تھا۔“
عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ ”71 میں جو انہوں نے تقسیم کی ناکامی سیاسی لوگوں پر ڈال دی تو میرے خیال سے فیکچوئلی بھی اس پر بہت سارے اعتراضات موجود ہیں، کیونکہ جنرل ایوب کے دور اور اس کے بعد سے جو پالیسیز رہیں، اور ون یونٹ کا فال آؤٹ، فال آف بنگال اور فال آف مشرقی پاکستان کی صورت میں نکلا تھا، یہ ملٹری کی ناکامی سمجھی جاتی ہے اور خود بڑے بڑے ایڈیٹوریلز نے اس پر لکھا ہے، ہسٹوریکلی (تاریخی طور پر) بھی یہ غلط ہے، اس طرح اس موقع پر اس کو بیان کرنا بھی مناسب نہیں تھا۔“
عاصمہ شیرازی نے کہا کہ مداخلت کی بات ہے تو پاک فوج کو اس بات کا احساس ہے اور ان کو یہ بات سمجھنی چاہئیے کہ ان کو ”سیاست سے بالاتر ہوکر بیرکس میں رہنا چاہئیے“ یہی ان کا آئینی کردار ہے۔
آرمی چیف نے خطاب میں یہ بھی کہا کہ اب وقت آ گیا ہے تمام سٹیک ہولڈر اپنی ذاتی انا کو ایک سائیڈ پر رکھ کر ماضی کی غلطیوں سے سیکھیں اور پاکستان کو اس بحران سے نکالیں۔“
اس بیان کے حوالے سے عاصمہ شیرازی نے کہا کہ جنرل باجوہ نشاندہی کر رہے ہیں کہ ملکی معاشی صورتِ حال کو ایک اور میثاقِ جمہوریت اور میثاق معیشت کی ضرورت ہے اور سب کو دوبارہ ایک ساتھ بیٹھنا ہوگا۔