آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے یوم دفاع و شہداء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ سے بطور آرمی چیف آخری بار خطاب کر رہا ہوں۔
اپنے الوداعی خطاب میں آرمی چیف نے کہا کہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں میں اپنی چوالیس سالہ ملٹری سروس سے ریٹائر ہو رہا ہو، اس مرتبہ یومِ شہداء سیلاب کی وجہ سے تاخیر سے منعقد ہوا جس کیلئے معذرت خواہ ہوں۔
آرمی چیف کا کہنا تھا کہ شہداء پاکستان کی عظمت کو سلام کو پیش کرتا ہوں جو ہمارا فخر ہیں، لواحقین کے حوصلے اور صبر و استقامت کو داد دیتے ہوئے یقین دلاتا ہوں کہ فوج آپ کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گی، اور ان کی تمام دنیاوی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ آرمی کمانڈ کی چھ سالہ مدت میں ہزاروں شہداء کے گھر تعزیت کیلئے گیا اور آفرین ہے کہ میں نے ہمیشہ ان کے حوصلوں کو بلند پایا، جس نے میرے حوصلے کو بھی تقویت بخشی۔ ہم آپ کے پیاروں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔
آرمی چیف کا کہنا تھا کہ فوج کا بنیادی کام ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ہےلیکن پاک فوج اپنی استطاعت سے بڑھ کر قوم کی خدمت میں مصروف رہتی ہے۔
پاک فوج کے سربراہ نے کہا کہ ”ریکوڈک کا معاملہ ہو یا کارکے کا جرمانہ فیٹف کے نقصان ہوں یا ملک کو وائت لسٹ سے ملانا یا فاٹا کا انضمام کرنا، بارڈر پر باڑ لگانا، قطر سے سستی گیس مہیا کرنا، دوست ممالک سے قرضوں کا اجراء، کووڈ کا مقابلہ ہو یا ٹڈی دل کا خاتمہ، سیلاب کی امدادی کارروائی ہو، فوج نے ہمیشہ اپنے مینڈیٹ سے بڑھ کر قوم کی خدمت کی ہے۔“
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ میں 1971 کے حوالے سے کچھ حقائق درست کرنا چاہتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ”سابقہ مشرقی پاکستان ایک فوجی نہیں سیاسی ناکامی تھی، لڑنے والے فوجیوں کی تعداد 92 نہیں صرف 34 ہزار تھی، باقی لوگ مختلف گورنمنٹ کے ڈیپارٹمنٹس میں تھے، ان 34 ہزار کا مقابل ڈھائی لاکھ بھارتی افواج، دو لاکھ ٹرین مکتی باہنی سے تھا۔ لیکن اس کے باوجود ہماری فوج بہت بہادری سے لڑی اور بے مثال قربانیاں پیش کیں جس کا اعتراف خود سابق بھارتی آرمی چیف فیلڈ مارشل مانیکشا نے بھی کیا۔ان بہادر غازیوں اور شہیدوں کی قربانیوں کا آج تک قوم نے اعتراف نہیں کیا جو کہ ایک بہت بڑی زیادتی ہے۔“
جنرل باجوہ نے کہا کہ میں آج اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان تمام غازیوں اور شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور پیش کرتا رہوں گا۔ وہ ہمارے ہیرو ہیں اور قوم کو ان پر فخر ہونا چاہیے۔
آرمی چیف نے کہا کہ ’آخر میں کچھ باتیں سیاسی صورتِ حال کے حوالے سے کرنا چاہوں گا، میں کافی سالوں سے اس بات پر غور کر رہا تھا کہ دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہندوستانی فوج کرتی ہے، لیکن ان کی عوام کم و بیش ہی ان کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے، اس کے برعکس ہماری فوج جو دن رات قوم کی خدمت میں مصروف رہتی ہے گاہے بگاہے تنقید کا نشانہ بنتی ہے۔‘
آرمی چیف نے کہا کہ ’ماضی میں فوج سیاست میں مداخلت کرتی رہی، میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ 70 سال سے فوج کی مختلف صورتوں میں سیاست میں مداخلت ہے جو کہ غیر آئینی ہے، اس لیے پچھلے سال فروری میں فوج نے بڑی سوچ و بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ آئندہ فوج کسی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی۔‘
سربراہ پاک فوج نے کہا کہ ’ایک جعلی اور جھوٹا بیانیہ بنا کر ملک میں ہیجان کی کیفیت پیدا کی گئی اور ابھی اسی جھوٹے بیانیے سے راہ فرار اختیار کی جا رہی ہے۔‘
آرمی چیف نے کہا کہ ’جھوٹا بیانیہ بناکر فوج پر ناجائز تنقید کی گئی، سینئر ملٹری لیڈر شپ کو مختلف القابات سے نوازا گیا، کئی حلقوں نے فوج کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، مگر ہمیشہ درگزر سے کام لیا، فوج پر تنقید شہریوں کا حق ہے لیکن الفاظ کا مناسب چناؤ کرنا چاہیے۔‘
آرمی چیف نے کہا کہ ’جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ فوج اور عوام میں دراڑ ڈال دیں گے وہ بھی ہمیشہ ناکام ہوں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ فوج کی قیادت کے پاس اس نامناسب یلغار کا جواب دینے کے لیے ذرائع اور مواقع موجود تھے، لیکن فوج نے ملک کے وسیع تر مفاد میں حوصلے کا مظاہرہ کیا اور کوئی بھی منفی بیان دینے سے اجتناب کیا’۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا، ’یہ بات سب کو ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اس صبر کی بھی ایک حد ہے۔ میں اپنے اور فوج کے خلاف اس نامناسب اور جارحانہ رویے کو درگزر کر کے آگے بڑھنا چاہتا ہوں کیونکہ پاکستان سب سے افضل ہے باقی سب کچھ آتی جاتی رہتی ہیں۔‘
سربراہ پاک فوج نے کہا کہ فوجی قیادت کبھی ملکی مفاد کے خلاف نہیں جاسکتی۔
آرمی چیف نے کہا کہ ’کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں ایک بیرونی سازش ہو اور مسلح افواج ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہیں گی؟ یہ ناممکن ہے بلکہ یہ گناہ کبیرہ ہے۔‘
آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے کہا کہ ’فوج نے تو اپنا کیتھراسس شروع کر دیا ہے مجھے امید ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیاں بھی اپنے رویے پر نظر ثانی کریں گی۔ ’ہمیں غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے اور آگے بڑھنا چاہیے۔‘
آرمی چیف نے کہا کہ ’اس کے ساتھ ساتھ جمہوریت کی رو کو سمجھتے ہوئے اور عدم برداشت کو ختم کرتے ہوئے ایک سچا جمہوری کلچر پیدا کریں۔ 2018 کے الیکشن میں بعض پارٹیوں نے آر ٹی ایس کو بہانہ بنا کر جیتی ہوئی پارٹی کو سلیکٹڈ کا لقب دیا اور 2022 میں اعتماد کا ووٹ کھونے کے بعد ایک پارٹی نے دوسری پارٹی کو امپورٹڈ کا لقب دیا۔‘
سپہ سالار کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں اس رویے کو رد کرنا ہو گا۔ ہار جیت سیاست کا حصہ ہے اور ہر پارٹی کو اپنی فتح اور شکست کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہو گا۔ رائے عامہ احترام کا نام ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اب وقت آ گیا ہے تمام سٹیک ہولڈر اپنی ذاتی انا کو ایک سائیڈ پر رکھ کر ماضی سے غلطیوں سے سیکھیں اور پاکستان کو اس بحران سے نکالیں۔‘
قبل ازیں،راولپنڈی میں واقع جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں یوم دفاع اور یوم شہداء کے حوالے سے تقریب کا انعقاد کیا گیا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے یادگارِ شہداء پر حاضری دی، پھول رکھے اور فاتحہ خوانی کی۔
تقریب میں اعلیٰ فوجی افسران، ریٹائرڈ آفیسرز اور شہداء اور غازیوں کے اہلِ خانہ اور دیگر افراد شریک ہوئے۔
تقریب میں خصوصی ڈاکیومنٹریز دکھائی گئیں، جن میں افسران اور جوانوں کی شجاعت، خدمات کی عکاسی کی گئی۔
یوم دفاع کی تقریب میں ملی نغمے بھی پیش کئے گئے۔