پاکستان کے نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا حتمی مرحلہ اب بظاہر 23 نومبر کی شام سے 24 نومبر کی شام تک کسی وقت بھی طے پا جانے کا قومی امکان ہے۔
حکومت اور عسکری ادارے کے درمیان اس اہم تعیناتی پر وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف کے سب اچھا ہے کہ بیانات کے باوجود سب اچھا نہیں تھا۔
اگر سب اچھا ہوتا تو 22 نومبر کی رات سمری وزیراعظم ہاؤس پہنچنے یا نہ پہنچنے کے متضاد دعوؤں کے بعد پاک فوج کے ترجمان آئی ایس پی آر کو پریس ریلیز جاری نہ کرنی پڑتی۔
یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف تقرری: جی ایچ کیو سے وزارت دفاع بھجوائی گئی سمری وزیراعظم آفس کوموصول
ماضی میں سمری بھیجنے کے پریس ریلیز کی ایسی کوئی روایت موجود نہیں ہے، کیونکہ جی ایچ کیو اور وزیراعظم ہاؤس کے درمیان اس تعیناتی پر وزارت دفاع ہی ڈاک خانے کا کام کرتا ہے، اور یہ ساری خط وکتابت پوسٹل ذرائع یا الیکٹرانک ذرائع کی جگہ ”بائی ہینڈ“ ہوتی ہے۔
اسلام آباد کے اہم ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وزیراعظم ہاؤس اور حساس ادارے کے درمیان صرف ایک باریک نوعیت کا اختلاف پیدا ہوا ہے۔
تفصیل میں جائے بغیر اگر اتنا ہی بتا دیا جائے تو کافی ہے کہ وزیراعظم ہاؤس موصول ہونے والی سمری میں ایک نام کو ضرور شامل کرنے اور ایک نام کو شامل ہی نہ کرنے پر بضد تھا، جبکہ دوسرے فریق کی طرف سے صورتِ حال بالکل برعکس تھی۔
مگر یہ طے ہے کہ اختلاف کی وجہ دو نام ہی تھے۔ اس کا اشارہ ایک روز قبل شاہد خاقان عباسی اپنے بیان میں دے چکے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی کے مطابق ”ضروری ہے کہ سمری جلد آئے اور وزیر اعظم جلد فیصلہ کریں، جب کہ ناموں کی فہرست میں اہل شخص کا نام شامل نہ ہونا یا اہلیت نہ رکھنے والے کا نام ہونا غلط ہوگا، یہ معاملہ عدالت میں چیلنج بھی ہوسکتا ہے۔“
اس دو سطری بیان میں سب کچھ پنہاں تھا۔
ذرائع کے مطابق جب 22 نومبر کی شام تک خلیج بڑھنے لگی تو زیرک سیاست دان آصف علی زرداری کی وزیراعظم ہاؤس میں انٹری ہوئی۔
ذرائع کا دعوٰی ہے کہ آصف علی زرداری نے مشورہ دیا کہ حتمی فیصلہ حکومت کے اتحادی مشاورت سے کریں گے اور فائنل اختیار برحال وزیراعظم کے پاس ہی ہے، اس لئے سمری میں تمام چھ سینئرز کے نام شامل کرلئے جائیں۔
ذرائع کے مطابق کم از کم میرٹ پر موجود پانچ ناموں میں سے کسی ایک افسر نام سمری میں نہ بھیجنا عسکری ادارے کے اندر افسروں میں تعصب کی فضا پیدا کرنے کا سبب بن سکتا تھا۔ اس لئے سابق صدر آصف علی زرداری نے سمری کو غیر متنازع رکھنے کی راہ ہموار کردی۔
یہ بھی پڑھیں: آرمی ایکٹ میں کوئی بڑی تبدیلی زیر غور نہیں، وزیر دفاع
اس اہم تعیناتی پر پہلا مرحلہ طے ہوگیا ہے، اب سب کی نظریں وزیراعظم ہاؤس پر ہیں، جو آج شام تک اتحادیوں کے اجلاس میں متفقہ رائے حاصل کرلیں گے۔
تاہم ایوان صدر بھیجے جانے والا واحد نام جب منظر پر آئے گا تو اس سے اندازہ ہوسکے گا کہ زلزلہ تھم گیا ہے یا اس کے آفٹر شاکس کا خدشہ رہے گا۔