چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے توشہ خانہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی نااہلی کی کے خلاف درخواست پر سماعت کے لئے 3 رکنی بینچ تشکیل دے دیا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد امیر بھٹی نے میانوالی کے حلقہ 95 سے ووٹر جابر علی کی درجواست پر فل بینچ تشکیل دیا ہے۔
فل بینچ کی سربراہی چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس امیر بھٹی کریں گے، بینچ کے دیگر 2ارکان میں جسٹس عابد عزیز شیخ اور جسٹس ساجد محمود سیٹھی شامل ہیں۔
جابرعلی نے اظہر صدیق ایڈووکیٹ کے توسط سے درخواست دائر کی ہے، درخواست میں الیکشن کمیشن کے کسی رکن اسمبلی کو نا اہل قرار دینے کے اختیار کو چیلنج کیا گیا ہے۔
درخواست گزار کے مطابق کسی پارلیمینٹیرین کو نااہل قرار دینے کا اختیار عدالت کا ہے ، الیکشن کمیشن عدالت نہیں لہذا فیصلہ غیر آئینی اور کالعدم قرار دیاجائے۔
جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے درخواست پر ابتدائی سماعت کے بعد یہ معاملہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو بجھوا دیا تھا اور درخواست پر سماعت کے لئے فل بینچ تشکیل دینے کی سفارش کی تھی ۔
یاد رہے کہ 21 اکتوبر کو الیکشن کمیشن آف نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں 5برس تک سرکاری عہدے کے لئے نااہل قرار دیا تھا۔
الیکشن کمیشن کے 4 رکنی کمیشن نے متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھاکہ عمران خان کرپٹ پریکٹسز میں ملوث رہے، ان کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کیا جائے گا۔
الیکشن کمیشن نے فیصلے میں مزید کہا تھا کہ کہ عمران خان رکن قومی اسمبلی نہیں رہے،ان کی نشست خالی قرار دی جاتی ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لئے دائر کیا جانے والا توشہ خانہ ریفرنس حکمران جماعت کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔
ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف کو فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ڈکلیئر نہیں کیا۔
آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے موقف اپنایا تھا کہ 62 ون ایف کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے جب کہ سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔
یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کو بھی آئین کی اسی شق کے تحت اسی نوعیت کے معاملے میں تاحیات نااہلی قرار دیا گیا تھا، ان پر اپنے بیٹے سے متوقع طور پر وصول نہ ہونے والی سزا گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے کا الزام تھا۔