”اگرعلاج کی سہولت قومی شناختی کارڈ کی بنیاد پر دی جارہی ہے تو پھراتنی پیچدگیاں کیوں ہیں؟“۔
یہ الفاظ ضلع باجوڑسے تعلق رکھنے والی 48 سالہ گل بی بی کے ہیں جو صحت سہولت پروگرام کے تحت اپنی سرجری کیلئے پشاور کے محمد ٹیچنگ اسپتال پہنچیں تو انہیں بتایا گیا کہ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے کے باوجود بھی وہ فی الحال صحت سہولت پروگرام کے تحت سہولیات کیلئے اہل نہیں کیونکہ ان کا قومی شناختی کارڈ ابھی پروگرام کے تحت رجسٹرنہیں ہوا۔
ضلع پشاور سے تعلق رکھنے والے 29 سالہ عرفان نے بتایا کہ 2 ماہ قبل جب وہ اپنی والدہ کا علاج اس پروگرام کے تحت کروانے کیلئے رحمان میڈیکل انسٹیٹوٹ گئے تو انہیں بتایا گیا کہ اسپتال میں پروگرام کے تحت مختص تمام بستروں پرمریض زیر علاج ہیں اس لیے انہیں صحت کارڈ کے بجائے بطور پرائیویٹ مریض داخلہ دیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح پشاور کی 43 سالہ شبنم بی بی نے بتایا کہ انکی سرجری ضرور پروگرام کے تحت مفت کی گئی لیکن اسپتال کی جانب سے سرجری کے بعد لازمی استعمال کرنے والی ادویات فراہم نہیں کی گئیں جو انہیں اپنے پیسوں سے خریدنی پڑیں۔
یہ مسئلہ صرف گل بی بی، عرفان یا پھرشبنم کا نہیں بلکہ صحت سہولت پروگرام میں کئی خامیوں اور مشکلات کی وجہ سے ہزاروں شہریوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
انشورنس کمپنی (اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن آف پاکستان) سے حاصل کردہ دستاویز کے مطابق صحت کارڈ میں خامیوں کی وجہ سے ڈاکٹروں اور مریضوں کی جانب سے مختلف اسپتالوں کے خلاف رواں سال مجموعی طور پر 2 ہزار 604 شکایات موصول ہوچکی ہیں، جن میں سب سے زیادہ 393 شکایات پشاورمیں صوبے کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال لیڈی ریڈنگ اسپتال کے خلاف درج کروائی گئی ہیں۔
خیبرٹیچنگ اسپتال کیخلاف 366،انسٹیٹوٹ آف ریڈیو تھراپی اینڈ نیوکلیئر میڈیسن کیخلاف 170،انسٹیٹوٹ آف کڈنی ڈیزیز کیخلاف 130اور رحمان میڈیکل انسٹیٹوٹ کیخلاف 129 شکایات موصول ہوچکی ہیں۔ دستاویز کیمطابق پشاور کے اسپتالوں کیخلاف 1 ہزار587، مردان کے اسپتالوں کیخلاف 372،سوات کے اسپتالوں کیخلاف 203 اور ملاکنڈ کے اسپتالوں کیخلاف 105 شکایات موصول ہوچکی ہیں۔ اسی طرح صحت سہولت پروگرام اور انشورنس کمپنی کی مشترکہ 4 ٹیموں نے رواں سال کے ماہ اگست میں کلینکل آڈٹ کرکے 30 ایسے اسپتالوں کی نشاندہی کی تھی جہاں بہترین علاج اور سہولیات فراہم نہیں کی جارہی تھیں۔
ٹیم نے ان اسپتالوں کیساتھ معاہدہ ختم کرکے نئے اسپتال شامل کرنے کی سفارش کی تھی تاہم ابھی تک ان سفارشات پر کوئی عملدرآمد نہیں کیا گیا۔
بیکرٹیلی نامی ادارے کی جانب سے صحت سہولت پروگرام کی کارکردگی سے متعلق تحقیق میں انکشاف سامنے آیا کہ پروگرام سے فائدہ اٹھانے والوں کو شکایت کے نظام کے وجود کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں تاہم اس کے باوجود انشورنس کمپنی کو ہیلپ لائن کے ذریعے گزشتہ سال 1 ہزار 881 شکایات درج کی گئیں۔
بیکرٹیلی نامی ادارے نے ریسرچ میں یہ بھی لکھا ہے کہ صحت سہولت پروگرام میں کئی امراض کے تشخیصی ٹیسٹ شامل نہیں جس کی وجہ سے مریضوں کو پرائیویٹ لیبارٹریز کا رخ کرنا پڑتا ہے اور پھر ان اخراجات کی ادائیگی کیلئے کوئی طریقہ کار نہیں۔ تحقیق میں کئی اسپتالوں میں نرسنگ سٹاف کی کمی،آپریشن تھیٹر اور آگاہی بینرز کی عدم موجودگی اور میڈکل سٹاف کی غیر تصدیق شدہ دستاویز کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔
ینگ ڈاکٹرزایسوسی ایشن خیبرپختونخوا کے صدر ڈاکٹراسفندیار بیٹنی نے بھی الزام عائد کیا ہے کہ صحت سہولت پروگرام کے تحت غیر معیاری طبی سہولیات دی جارہی ہیں کیونکہ آنکھوں کے معیاری لینز کی اس وقت مارکیٹ 25 ہزار قیمت ہے لیکن صحت کارڈ کے تحت اس کی قیمت 20 ہزار روپے مقرر ہے جس سے ظاہرہے کہ غیر معیاری لینزفراہم کیے جارہے ہیں۔
ڈاکٹر اسفندیار نے کہا کہ صرف غیر معیاری ادویات پر بات ختم نہیں ہوتی بلکہ کئی غیر معیاری اسپتالوں یا صحت مراکز کو بھی صحت سہولت پروگرام کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے کئی اسپتالوں اور ڈاکٹروں کی ادائیگیاں بھی 5 سے 8 ماہ تک تاخیر کا شکارہیں اور بقایاجات کی ادائیگی کیلئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے جارہے۔
عدم ادائیگیوں سے متعلق بیکرٹیلی کے سروے میں بھی تصدیق ہوئی ہے، جس کے مطابق 34 فیصد اسپتال یا صحت مراکز ادائیگیوں کی سے مطمئن نہیں اور 94 فیصد ہسپتالوں نے ای کلیمز پروسیسنگ سسٹم کی سفارش کی ہے۔
صرف رحمان میڈیکل انسٹیٹوٹ(آرایم آئی) کو صحت کارڈ پلس کیلئے جزوی بستر مختص کرنے کی اجازت دی گئی ہے جس کو بیکرٹیلی نامی ادارے نے ”امتیازی سلوک“ قرار دیا ہے کیونکہ اس بات کا خطرہ ہے کہ فہرست میں شامل اسپتال بھی اس طرح کا طرزعمل شروع کر سکتے ہیں اور اسپتال میں بستروں کی دستیابی کی کمی پرعلاج سے انکار کا معاملہ بڑھ سکتا ہے۔
انشورنس کمپنی انتظامیہ نے مسئلہ کو تسلیم کرتے ہوئے مؤقف دیا کہ آرایم آئی کے ساتھ اس معاملے کو اٹھایا ہے اور اگراسپتال شرائط پر راضی نہیں ہوا تو پینل سے ہٹانے کی کارروائی شروع کی جا سکتی ہے کیونکہ یہ پورے پاکستان میں واحد اسپتال ہے جسے صحت کارڈ پلس کیلئے جزوی بستر مختص کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
انشورنس کمپنی کو سب سے زیادہ شکایات لیڈی ریڈنگ اسپتال (ایل آر ایچ) کیخلاف شکایات موصول ہوئی ہیں جس پر ایل آر ایچ کے ترجمان محمد عاصم کا مؤقف ہے کہ کہ شکایات پر کمیٹی بنائی گئی ہے اور زیادہ تر شکایات کو حل کرکے مریضوں کے تحفظات دورکردیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی ایل آر ایچ میں سب سے زیادہ 1 ہزار کے قریب مریض صحت کارڈ پر زیرعلاج ہیں۔
ادائیگیوں میں تاخیر سے متعلق صحت سہولت پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر وحید نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ تمام اسپتالوں کو بروقت ادائیگیاں یقینی بنائی جائیں تاہم اکثر اوقات اسپتالوں کی جانب سے نامکمل دستاویز کی وجہ سے ادائیگی التواء کا شکار ہوجاتی ہے۔
صحت سہولت پروگرام کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر ریاض تنولی کا کہنا ہے کہ پروگرام میں ضرور کچھ خامیاں ہوسکتی ہیں لیکن ترقی پذیر ملک میں مفت صحت سہولیات عوام کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں۔ شکایات کے حوالے سے ڈاکٹر ریاض تنولی نے بتایا کہ تمام شکایات پر انکوائری ہوتی ہے اور اسپتال کے قصور وار ہونے پر پہلی بار انہیں انتباہ کیا جاتا ہے،دوسری بار شکایت پر معطلی ہوتی ہے اور تیسری شکایت پر اسپتال کیساتھ معاہدہ ختم کیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال مریضوں کی شکایات پرکلینکل آڈٹ کیا گیا اور معیاری طبی سہولیات فراہم نہ کرنے پر 13 اسپتالوں کو پینل سے ہٹایا گیا جبکہ اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ شکایت کی صورت میں اسپتال پر جرمانہ بھی عائد کیا جائیگا جس سے متعلق سفارشات تیار کرکے جلد صوبائی کابینہ سے منظوری لی جائے گی۔
ڈاکٹرریاض نے بتایا کہ اب ہر سال جنوری میں اسپتالوں کا معائنہ کیا جائے گا جس کے بعد اسپتالوں کو ہٹانے یا نئے اسپتال شامل کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ قومی شناختی کی بنیادی پر ہی سروس فراہم کی جاتی ہے تاہم پروگرام کے تحت سہولت حاصل کرنے کیلئے خیبرپختونخوا کا باشندہ ہونے کیساتھ ساتھ نادرا میں کسی خاندان کا حصہ بھی ہونا لازمی ہے۔ صحت سہولت پروگرام کے تحت علاج اور ادویات بہترین معیار کیمطابق فراہم کی جارہی ہیں کیونکہ تمام ادویات ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان سے منظورشدہ ہیں۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر ادویات ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سے منظور شدہ نہیں تو کیوں ڈاکٹر تجویز کرتے ہیں اور کیوں مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔
محکمہ صحت خیبرپختونخوا سے حاصل کردہ دستاویز کے مطابق صحت سہولت پروگرام کے پینل پرملک بھر کے ایک ہزار 43 اسپتال ہیں جن میں خیبرپختونخوا کے 191 اسپتال بھی شامل ہیں اور خیبرپختوںخوا کے شہری صرف پینل پر موجود اسپتالوں میں ہی مفت صحت سہولیات حاصل کرسکتے ہیں۔
دستاویزکے مطابق پروگرام کے تحت 96 لاکھ سے زائد خاندانوں کو مفت طبی معالجے کی سہولت دی جارہی ہے اور ہر خاندان سالانہ 10 لاکھ روپے تک مفت سہولیات حاصل کرسکتا ہے جبکہ فی مریض اوسطا 62 ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں اور پروگرام کے تحت 2015 سے اب تک 39 ارب روپے خرچ ہوچکے ہیں۔
انشورنس کمپنی کی ویب سائٹ سے حاصل کردہ دستاویز کیمطابق او پی ڈی، جان بوجھ کر خود کو زخمی کرنے کاعلاج، غیرقانونی حرکت کے نتیجے میں درکارعلاج،حالات جنگ یا فوجی اقدامات کے نتیجے میں درکارعلاج، کھیل میں حادثے کے باعث درکارعلاج اور ایٹمی تنصیبات سے اخراج کے باعث درکار علاج پروگرام میں شامل نہیں۔
دستاویزکے مطابق کاسمیٹک سرجری،ہیئر رانسپلانٹ،بانجھ پن،ایڈز،خون کی سکریننگ اور میچنگ،جنسی، نفسیاتی، ذہنی، اعصابی،دانتوں کی بیماریوں کا علاج بھی پروگرام کورنہیں کرتا ہے۔ سیلاب،زلزلہ،طوفان جیسے قدرتی آفات سمیت پین ڈیمک اوراپیڈیمک کی صورت میں درکارعلاج بھی پروگرام کا حصہ نہیں۔
ڈاکٹر ریاض تنولی نے مزید بتایا کہ صحت سہولت پروگرام کو قانونی حیثیت دینے کیلئے رواں سال خیبرپختونخوا حکومت نے خیبرپختونخوا یونیورسل ہیلتھ کوریج ایکٹ 2022 کے نام سے قانون بھی منظور کیا ہے اور ملک و صوبے کی معیشت میں بہتری آنے پر وقت کے ساتھ ساتھ پروگرام میں مزید بیماریوں کا علاج بھی شامل کیا جائے گا۔