عراق کے سابق صدر صدام حسین کے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار، 2003 میں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے عراق پر حملے کی ایک اہم وجہ تھے، لیکن وہ ہتھیار کبھی نہ مل سکے، پھر دنیا نے کہا کہ یہ سب کچھ عراقی تیل کے ذخائیر کے حصول کیلئے کیا گیا۔
دوسری خلیجی جنگ کی ان قابل اعتراض بنیادوں نے تب سے بُش اور ان کے برطانوی ہم منصب ٹونی بلیئر دونوں کی ساکھ کو داغدار کر رکھا ہے۔
آج بھی سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اپنی سیاسی ساکھ اور وراثت پر اس قدر توجہ مرکوز رکھنے والے دو افراد نے اس طرح کے ناقابل اعتبار بہانے کے ساتھ اتنا خطرناک آپریشن کیوں شروع کیا؟
تاہم، ایک آسٹریلوی سائنس دان کا خیال ہے کہ ان کے پاس اس سوال کا جواب ہے۔
ڈاکٹر مائیکل ای سالا کا خیال ہے کہ بش اور بلیئر کی جانب سے 2003 میں عراق پر حملہ کرنے کے بہانے کے طور پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی کہانی ایک کور تھا جس کے پیچھے ناقابل یقین مقاصد کارفرما تھے۔
سالا کا دعویٰ ہے کہ نظامِ شمسی کے پراسرار 10ویں سیارے ”نیبیرو“ کی خلائی مخلوق کا عراقی اور ایرانی خطے کے لوگوں کے ساتھ طویل عرصے سے تعلق تھا۔
اپنے ایک Exopolitical Perspective on the Preemptive War Against عنوان سے شائع مقالے میں سالا لکھتے ہیں کہ اس علاقے میں خلائی مخلوق کے طویل عرصے سے موجودگی کے شواہد موجود ہیں، جو سمیری تہذیب کے ابتدائی دنوں سے جا ملتے ہیں۔
سمیری ثقافت ماضی میں کبھی دریائے فرات کے کنارے کی زرخیز زمینوں پر قابض تھی۔.انہوں نے ’نیفیلم‘ کے مؤرخ زکریا سیچن کے دعوؤں کا حوالہ دیا، جو تقریباً 200 خلائی مخلوقوں کا ایک گروہ ہے جنہوں نے اپنے ’ایلوہیم‘ نامی اعلیٰ افسران کے خلاف بغاوت کی اور زمین پر انسانوں سے رابطہ کیا اور شاید ابتدائی انسانی تہذیب کو بھی تخلیق کیا۔
یہ دعوے اس خیال کے ارد گرد مرکوز ہیں کہ خیالی سیارے نیبیرو کا مدار انتہائی انوکھا ہے جو کبھی کبھی اسے زمین کے قریب، مریخ اور مشتری کے درمیان لے آتا ہے۔
لیکن اکثر یہ بیرونی نظام شمسی کی سیاہی میں کھویا رہتا ہے۔
نیبیرو مفروضے کو جزوی طور پر ماہرین فلکیات چاڈ ٹرجیلو اور سکاٹ شیفرڈ کے کام کی حمایت حاصل ہے، جنہوں نے 2014 میں نظام شمسی کے بیرونی حصوں میں ایک بڑے سیارے کے چھپے ہونے کے امکان کو ظاہر کیا تھا۔
بہر حال، سالا کو یقین ہے کہ خلائی مخلوق کے یہ دو گروہ، جنہیں وہ اجتماعی طور پر ”انوکئی“ کہتے ہیں، وقتاً فوقتاً سال کے چکر میں انسانیت کا دورہ کرتے ہیں۔
انوکئی کا ایک مشن ایسے ہی ایک دورے پر 1991 میں زمین پر پہنچا، لیکن پہلی خلیجی جنگ کے دوران امریکی فضائیہ کے F-16 نے غلطی سے اسانوکئی خلائی جہاز کو مار گرایا۔
امریکی انتظامیہ اس خلائی مخلوق کے جہاز کو قبضے میں لینے کی خواہش مند تھی۔
سالا نے نظریہ پیش کیا کہ اس خلائی جہاز پر موجود انوکئی کا مشن عراق میں چھپے ایک ”اسٹار گیٹ“ کو چالو کرنا تھا، جو ممکنہ طور پر اینزو کے ”ڈارک زیگورات“ کے نیچے مدفون تھا جو کبھی بدنام زمانہ سومیری جادوگر جمِل اشبی کا غار تھا۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ “ اسٹار گیٹ ایک طرح سے اسپیس ٹائم سفر کا ایک فوری ذریعہ ہے، جو کسی کو بھی ایک علاقے سے دوسرے میں فوری طور پر ٹیلی پورٹ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔“
سالا لکھتے ہیں کہ اگر اس اسٹار گیٹ کو چالو کیا جاسکتا تو یہ صدام کو نیبیرو اور انوکئی کے جدید ماورائے زمین ہتھیاروں تک رسائی فراہم کر سکتا تھا۔ اور یہی اس اسٹار گیٹ کا خطرہ تھا۔
سالا کے مطابق، اسی وجہ سے امریکا اور برطانیہ نے سیاروں کے درمیان جنگ کے امکانات کو چھپانے کیلئے ایک ”بہانے پر مبنی مسودہ“ تیار کیا۔
سالا کا دعویٰ ہے کہ ”بش انتظامیہ نے تسلیم کیا صدام کے پاس کرہ ارض کی قدیم تاریخ سے متعلق کچھ بہت، بہت قیمتی متعلقہ معلومات تھیں، جو یا تو ٹیکنالوجی یا تحریروں پر مبنی تھیں اور وہ اسے عام لوگوں کے لیے جاری کرنے والے تھے۔“
”میرے خیال میں بش انتظامیہ کے عراق میں اترنے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ صدام حسین کو اس معلومات کو پبلک کرنے سے روکا جائے اور اس پر اپنا کنٹرول کیا جاسکے۔“
سالا کا کہنا ہے کہ دنیا کی دیگر طاقتوں کی بھی اپنی ٹیمیں تھیں جو اسٹار گیٹ کی تلاش میں تھیں۔
انہوں نے کہا کہ ”صدام حسین جنوبی عراق میں زمین پر کنٹرول رکھتے تھے اور اروک میں جرمن قیادت میں کھدائی کی اجازت دے رہے تھے، جب کہ امریکی قیادت میں اتحادی افواج کا کنٹرول آسمان پر تھا اور حالات کی نگرانی کر رہا تھا۔“
بش انتظامیہ اروک کی کھدائی میں مدفون اسٹار گیٹ کو تلاش کرنے اور اس کی قریب سے نگرانی اور کنٹرول کرنے کے لیے عراقی سرزمین پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتی تھی۔
”اس کے برعکس، صدام حسین اپنی عظیم شان اور ممکنہ طور پر انسانیت کے فائدے کے لیے اسٹار گیٹ کو تلاش کرنا اور اسے فعال کرنا چاہتے تھے۔“
لیکن ”آپریشن عراقی فریڈم“ کے تحت ایک ماہ تک مسلسل جاری رہنے والے حملوں نے ان کھدائیوں اور زمین اور نیبیرو کے درمیان سالا کے فرضی سب اسپیس کوریڈور کا خاتمہ کردیا۔
لیکن سوال اب بھی موجود ہے کہ کیا یہ اسٹار گیٹ کبھی موجود تھا؟
شکست خوردہ قوم میں موجود اس سوال کا یقینی جواب دینے والے زیادہ تر مر چکے ہیں اور فاتحین ”بش اور بلیئر“ کی جانب سے اس طرح کے ”بین السیارہ وجود“ کی تصدیق کرنے کا زیادہ امکان نہیں ہے۔