Aaj Logo

شائع 21 نومبر 2022 05:15pm

فیفا ورلڈ کپ: قطر کا کانٹوں بھرے راستے پر کامیاب سفر

فیفا ورلڈ کپ کی انتہائی منتظر افتتاحی تقریب کا انعقاد اتوار کی رات ہوا اور اس شو نے ناظرین کو مبہوت کردیا۔

تاہم، حالیہ دنوں کی بہترین تقریبات میں سے ایک کہلائے جانے کے باوجود، قطر کی ورلڈ کپ میزبانی کا راستہ شراب پر پابندی اور مذہبی شمولیت سے لے کر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بائیکاٹ تک تنازعات سے بھرپور رہا ہے۔

مذہبی پہلو

قطر کا فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کرنے والا پہلا مسلم ملک بننا بہت سے ”لوگوں“ کیلئے بڑا جھٹکا تھا۔ قطر نے اس بات کو یقینی بنایا مذہب اس تقریب کا ایک بڑا حصہ رہے، تو کِک آف سے پہلے قطر نے حکمت عملی کے تحٹ سیاحتی مقامات کے ارد گرد قرآن کی آیات اور نبی کریم ﷺ کے اقوال آویزاں کئے۔

قطری حکام اسٹیڈیم میں قوس قزح کے رنگ والے جھنڈوں سمیت LGBTQ+ ڈسپلے کیلئے عدم برداشت کی پالیسی اپنائی۔ جبکہ نامناسب لباس پر پابندی عائد کرتے ہوئے بھاری جرمانے کی سزا کا عندیہ دیا۔

غیر ملکی شائقین کیلئے ان سب میں سب سے زیادہ چونکا دینے والی بات شراب پر پابندی تھی۔ فٹ بال کے شائقین میچز کے دوران اسٹیڈیم میں شراب پینے کے عادی ہیں۔

تاہم، فیفا ورلڈ کپ کی تقریب اور تہواروں کے آغاز سے دو دن قبل، قطر نے شراب پر پابندی کا اعلان کیا، حالانکہ پہلے یہ کہا گیا تھا کہ وہ شراب کی فروخت کی اجازت دیں گے۔

اس کے علاوہ فیفا ورلڈ کپ کی تقریب کا ایک حصہ تلاوت قرآن پاک تھا۔

افتتاحی تقریب کا موضوع تمام ثقافتوں، نسلوں اور مذاہب کے اتحاد کے بارے میں تھا اور اس موضوع میں قرآن کی تلاوت تھی جس کا اشارہ صرف اسی طرف تھا۔

ایونٹ میں مذہبی شمولیت کا ردعمل متنوع تھا۔ بہت سے لوگوں نے محسوس کیا کہ کھیلوں میں مذہب کی کوئی جگہ نہیں ہے۔

فیفاعہدیداروں کا ردعمل

فیفا ورلڈ کپ کی تقریب شروع ہونے سے پہلے، میزبان ملک کے بارے میں فیفا حکام کے درمیان اختافات دیکھنے کو ملے۔

فیفا کے سابق صدر سیپ بلاٹر نے کہا کہ انہیں قطر کو میزبان بنانے کی اجازت دینے پر افسوس ہے، ”یہ ایک برا انتخاب تھا۔ اور میں اس وقت بطور صدر اس کا ذمہ دار تھا۔“

قطر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو درست کرنے کی کوشش کے بیان پر انہوں نے اسے ”پبلسٹی اسٹنٹ“ قرار دیا۔

تاہم، فیفا کے موجودہ صدر جیانی انفانٹینو کا ردعمل سیپ بلاٹر سے مختلف تھا۔

تقریب کے موقع پر انفانٹینو نے ایک سخت بیان میں مغرب کی منافقت کو للکارا اور کہا کہ، ”ہمیں یورپیوں اور مغربی دنیا سے بہت سے سبق سکھائے گئے ہیں، میں یورپی ہوں۔ ہم دنیا بھر میں 3000 سال سے جو کچھ کر رہے ہیں، اس کے لیے ہمیں اخلاقی سبق دینے سے پہلے اگلے 3000 سالوں کے لیے معافی مانگنی چاہیے۔“

انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیاں

ورلڈ کپ شروع ہونے سے پہلے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر شور مچایا گیا، خاص طور پر تارکین وطن مزدوروں کے حوالے سے۔

قطر کو ورلڈ کپ کی میزبانی کرتے ہوئے 12 سال ہوچکے ہیں اور اس ٹورنامنٹ کے لیے قطر میں جزیرے بنائے جا رہے ہیں اور ان جزیروں کی تخلیق میں مہاجر مزدوروں کا بڑا ہاتھ ہے۔

2021 میں، دی گارجئین نے دعویٰ کیا کہ پچھلے دس سالوں میں ہندوستان، پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے تعلق رکھنے والے 6 ہزار 500 تارکین وطن کارکن قطر میں ہلاک ہوئے۔

اموات کی وجوہات میں کام کی جگہ پر ہونے والے حادثات، کار کے حادثات، خودکشی اور دیگر وجوہات سے ہونے والی اموات بشمول گرمی کے ساتھ ساتھ استحصالی حالات جن میں وہ رہ رہے تھے، شامل ہیں۔

فیفا اور قطر ان نمبروں سے اخلتاف کرتے ہیں۔ قطر نے دعویٰ کیا کہ ورلڈ کپ کی تعمیراتی سائٹس پر کام کے براہ راست نتیجے میں صرف تین افراد ہلاک ہوئے، اور 37 کارکنوں کی موت کا اعتراف کیا جو ”غیر کام سے متعلق“ تھے۔

بائیکاٹ

جب برطانوی شہری اپنی اسکرینوں کے سامنے فیفا ورلڈ کپ کی افتتاحی تقریب دیکھنے کے ارادے براجمان ہوئے تو وہ یہ جان کر حیران رہ گئے کہ بی بی سی نے تقریب کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔

اس کے بجائے بی بی سی نے ایسی نشریات چلائیں جن میں قطر کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور قطر سے مطالبہ کیا کہ وہ صرف ”فٹ بال پر دھیان دے۔“

تاہم، ناظرین نے بی بی سی کے مؤقف سے اختلاف کیا اور چینل پر تنقید کی۔

لیکن صرف بی بی سی نے فیفا ورلڈ کپ کی افتتاحی تقریب کا بائیکاٹ نہیں کیا۔

گلوکارہ دعا لیپا نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے افتتاحی تقریب کے دوران پرفارم کرنے سے انکار کر دیا۔

اسی طرح راڈ سٹیورٹ اور شکیرا بھی تقریب میں پرفارم کرنے سے پیچھے ہٹ گئے۔

تاہم اب قطر کے لیے پہلے سے کانٹوں بھرے راستے اور تمام رکاوٹوں کے باوجود 12 سال کے طویل عرصہ بعد بالآخر ورلڈ کپ کا آغاز ہوگیا ہے۔

Read Comments