سپریم کورٹ میں ریکوڈک معاہدے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیٸے کہ کیوں نہ 1948 کے معدنیات ایکٹ کو اس کی اصل حالت میں رہنے دیا جائے؟ قانون میں دی گئی وفاقی نوعیت کی شقیں وفاق اور صوبائی شقوں کا جائزہ صوبائی حکومت لے۔
عدالتی معاون زاہد براہیم نے دورانِ سماعت کہا ریکوڈک منصوبہ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے دروازے کھولے گا۔ اس سے ماضی اور موجودہ حکومتوں کی سیاسی ہم آہنگی کو فروغ ملے گا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی۔
عدالتی معاون سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ قوانین وفاقی یا صوبائی ہوتے ہیں، معدنیات ایکٹ 1947 وفاقی اور صوبائی دونوں نوعیت کا ہے، مجوزہ ترمیم آئین میں دی گئی اسکیم کے منافی ہے۔
ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ گیس، تیل اور نیوکلیئر انرجی کے علاوہ باقی معدنیات کے لٸے قانون سازی صوبوں کو کرنی چاہیے۔
عدالتی معاون زاہد ابراہیم نے دلائل میں کہا کہ خیبرپختونخوا 2017 میں معدنیات اور کان کنی کے حوالے سے قانون لایا۔ پاکستانی عدالتی کارروائی کے نتیجے میں ریکوڈک معاملہ عالمی ثالثی عدالت میں گیا۔
بیرک گولڈ کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کے پی اور سندھ حکومت معدنیات ایکٹ میں ترامیم کر چکی ہیں۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت منگل تک ملتوی کر دی۔