پچھلے کئی ہفتوں سے سوشل میڈیا پر دو تھپڑوں کا ذکر ہو رہا ہے۔ دو سیاسی جماعتوں کے حامی دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کی مخالف جماعت کے وزیراعظم کو تھپڑ مارا گیا۔
اپنے دعوؤں کو سچ ثابت کرنے کے لیے پوری کہانی کئی طرح کی جزئیات کے ساتھ پیش کی جا رہی ہے۔ خود کو سمجھدار سمجھنے والے کچھ لوگ ان دعوؤں کو جھوٹ اور الزام تراشی کہتے ہوئے اس کی مذمت کر رہے ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ جو کچھ سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے وہ عین انسانی رویے کے مطابق ہے اور پہلی بار نہیں ہورہا۔ ہم انسان ایسی کہانیاں گھڑنے کے عادی یا یوں کہہ لیں پرانے مجرم ہیں جن میں جھوٹ میں سچ یا سچ میں جھوٹ کا تڑکا لگا ہو۔
ادب بالخصوص انگریزی ادب میں ایک صنف ریئل پرسن فکشن (Real Person Fiction)کی ہے جسے فین فکشن بھی کہتے ہیں۔ (اگرچہ فین فکشن کی ایک اور تعریف بھی ہے) اس میں کسی حقیقی شخصیت کا نام اور کوائف استعمال کرتے ہوئے کہانی گھڑی جاتی ہے۔ کہانی فرضی ہوتی ہے اور شخصیت اصلی، لیکن بہت سے قارئین کہانی کو اصل سمجھ لیتے ہیں۔ ایسا فکشن حقیقت اور افسانے کو گڈمڈ کر دیتا ہے۔
پاکستان کی حالیہ تاریخ میں ایسا ایک مشہور واقعہ اکتوبر 2013 میں پیش آ چکا ہے جب معروف سماجی نقاد ندیم ایف پراچہ نے ملالہ یوسفزئی کے حوالے سے ایک فرضی کہانی لکھی۔ ”ملالہ اصل کہانی (شواہد کے ساتھ)“ کے عنوان سے تحریر میں انہوں نے لکھا کہ ملالہ یوسفزئی نہ تو پاکستانی ہے اور نہ پشتون بلکہ وہ بڈاپسٹ میں پیدا ہوئی اور اسے مغرب نے سوات میں تعینات کیا تھا۔ ڈان اخبار میں شائع ہونے والی اس کہانی میں بھی کہا گیا کہ ملالہ پرحملہ ڈرامہ تھا۔
یہ ریئل پرسن فکشن ان لوگوں پر طنز تھا جو ملالہ کو گولی لگنے کی کہانی کو جھوٹ کہہ رہے تھے۔ مضمون کے آخر میں واضح بھی کیا گیا کہ تھا کہ یہ طنز اور فکشن ہے۔ لیکن ہوا یہ کہ ندیم پراچہ کی اس کہانی پر بڑی تعداد میں لوگوں نے یقین کر لیا۔ نتیجتاً ڈان کی ویب سائٹ کو مضمون کے شروع میں بھی وضاحت لگانا پڑی۔ یہ وضاحت اب تک موجود ہے۔
ریئل پرسن فکشن یا فین فکشن کی بعض کہانیاں اتنی تفصیلی اور دلچسپ ہوتی ہیں کہ ان پر یقین کرنے کو دل چاہتا ہے۔ ساحر لدھیانوی اور پلے بیک سنگر سدھا ملہوترا کی کہانی کو ہی لے لیں۔ ساحر لدھیانوی کی نظم ”چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں۔۔۔“ سے سبھی واقف ہیں۔ کہانی یہ گھڑی گئی کہ ساحر اور سدھا ایک اور دوسرے کو پسند کرتے تھے لیکن خاندانوں کی مخالفت کے سبب ایک نہ ہوسکے اور ساحر نے یہ نظم اس وقت لکھی جب سدھا کی شادی ہونے والی تھی۔ اس کہانی کے ایک ورژن میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ساحر نے یہ نظم سدھا کی شادی میں گا کر سنائی اور دلہن بنی سدھا ملہوترہ سن کر روتی رہیں۔ ایک اور ورژن میں جو یہاں موجود ہے ساحر اور سدھا کی آخری ملاقات کا تفصیلی احوال دیا گیا ہے اور کہا گیا کہ پلے بیک سنگر اپنی شادی کا دعوت نامہ دینے گئی تھیں جب ساحر کو انہوں نے یہ نظم گاتے سنا۔ وہ دعوت دے کر آگئیں ساحر نے نظم تحفے میں بھجوا دی۔ یہ ان کا الوداعی تحفہ تھا۔
اس طرح کے ریئل پرسن فکشن نے سدھا ملہوترا کے لیے اس وقت پریشانی پیدا کی جب معروف بلٹس (Blitz) میگزین نے بھی یہ کہانی شائع کردی۔ سدھا کے خاندان اور سسرال نے میگزین پر مقدمہ کر دیا جسےاپنے اس اقدام پر معافی مانگنا پڑی۔
ہالی ووڈ میں تو 1940 میں وٹمین پبلشنگ کمپنی نے اجازت کے ساتھ اداکارون کے بارے میں ریئل فکشن شائع کیا تاکہ ان فنکاروں کی مقبولیت بڑھ سکے۔
جھوٹ میں سچ ملا کر یہ فکشن محض تعریف میں ہی نہیں لکھا جاتا بلکہ اکثر ہجو کے لیے استعمال ہوتا ہے اور بعض اوقات تو لکھنے والے اپنے حقیقی دنیا کے فرضی کردار کو دردناک موت تک سے ہم کنار کردیتے ہیں یا ان کے بارے میں شرمناک باتیں لکھ ڈالتے ہیں۔
ریئل پرسن فکشن یا فین فکشن کوئی نئی صنف نہیں۔ ویلیم شیکسپئر نے تاریخی کرداروں پر مبنی جو ڈرامے لکھے انہیں ریئل پرسن فکشن کی اولین نظیر قرار دیا جاتا ہے۔
بعض اوقات ریئل پرسن فکشن اتنا طاقت ورثابت ہوتا ہے کہ یہ ’سچائی‘ کو تخلیق کردیتا ہے۔ ہمارے ادب میں انار کلی کا کردار اس کی ایک مثال ہے۔ فین فکشن پر جائیں تو انار کلی بادشاہ اکبر کی ایک کنیز تھی جسے اکبر کے حکم پر دیوار میں زندہ چنوا دیا گیا تھا۔ لیکن مؤرخین باوجود کوشش کے اس بات کا ثبوت نہیں ڈھونڈ سکے کہ ایسی کوئی کنیز حقیقت میں وجود رکھتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ قصہ یورپی سیاح ولیم فنچ نے گھڑا جو 1618ء میں لاہور پہنچا، فنچ کی کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح اس من گھڑت واقعے کے ذریعے مغل شہنشاہ اکبر کو بد نام کیا جائے۔ اس نے اکبر کی توہین، تذلیل، تضحیک اور بے توقیری میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ مشرقی مصنفین کی تحاریر میں اس کردار کا پہلا ذکر 1864 میں ملتا ہے۔ یعنی 200 برس کے وقفے سے اور اس وقت تک برصغیر پر انگریز قابض ہو چکے تھے۔
ریئل پرسن فکشن سے دنیا کے مختلف حصوں میں لوگ پریشان ہیں۔ کچھ کے خیال میں اس کی کوئی حدود و قیود ہونی چاہیں۔ لیکن اس کے باوجود ریئل پرسن فکشن یا فین فکشن لکھنے کا رحجان بڑھتا جا رہا ہے۔
فین فکشن کی اصطلاح ان تحاریر کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے جن میں پہلے سے موجود کسی کہانی کے کرداروں کو لے کر پرستار نئی کہانی گھڑتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ جے کے رولنگ کے ناول ہیری پوٹر کے کردار کو لے کوکوئی اور کہانی لکھ ڈالیں تو یہ بھی فین فکشن کے ذمرے میں شمار ہوگی۔ مغرب میں اس طرح کا فین فکشن پہلے ہی تخلیق ہو چکا ہے۔
ہر دو طرح کے فین فکشن کی مارکیٹ میں بہت طلب ہے۔ پبلشر مصنفین کو فین فکشن یا ریئل پرسن فکشن لکھنے کے لیے کہتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ ان کہانیوں کو سننا پسند کرتے ہیں جن سے وہ کوئی تعلق محسوس کر سکیں۔ اس طرح کے فکشن کو پسند کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان میں آپ غلط کو درست کرسکتے ہیں۔ کسی کے ساتھ ہوئے ظلم کا انتقام لے سکتے ہیں۔
لیکن اس فین فکشن کو پسند کرنے میں اعتدال بھی ضروری ہے۔ بصورت دیگر وہی انجام ہو گا جو ہسپانوی ناول نگار سروانتے کے ناول کے مرکزی کردار ”ڈان کہوٹے“ کا ہوا تھا، جو ناول پڑھ پڑھ کے خود کو ہیرو سمجھ لیتا ہے اور ذلت اٹھاتا ہے۔
ڈان کہوٹے کا ترجمہ اردو میں ”خدائی فوجدار“ کیا جاتا ہے۔
ریئل پرسن فکشن کی انتہا بس خدائی فوجداروں کو ہی جنم دے سکتی ہے۔ سوشل میڈیا کے جوش جنوں میں بہہ جانے والوں کو اور کیا کہا جا سکتا ہے۔